(ویب ڈیسک)آرمینیا کے وزیر خارجہ نے سابقہ سوویت جمہوریہ میں نیگورنو کاراباخ میں جنگ کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے پیشِ نظر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جنگ بندی میں آذربائیجان کے لیے علاقائی فوائد ہیں۔وزارت خارجہ کی ترجمان نے اپنی فیس بک پیج پر زهراب ناتساكانيان کی روانگی کا اعلان کیا جو مئی 2018 سے اس عہدے پر براجمان تھے۔
واضح رہے کہ آرمینیا کے وزیر اعظم نيكول باشينيان کو جنگ بندی کے معاہدے پر شدید تنقید کا سامنا ہے جس کے تحت 6 ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی اختتام پذیر ہوئی تھی جبکہ گزشتہ ہفتے ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ روز دارالحکومت یریوان کے سینٹرل فریڈم اسکوائر پر سیکڑوں مظاہرین نے ریلیاں نکالیں۔
یادرہے جنگ بندی معاہدے پر آرمینیا، آذربائیجان اور روس کے رہنماؤں نے 10 نومبر کو دستخط کیے تھے، جس کے بعد نیگورنوکاراباخ اور اس کے اطراف میں فوجی کارروائی کو روک دیا گیا تھا۔
اس محصور علاقے کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن یہاں آباد لوگ آرمینیائی نسل کے ہیں، اس خطے میں 2 ہزار روسی امن فوجی اہکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
گزشتہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں زهراب ناتساكانيان نے آذربائیجان کے اپنے ہم منصب جيحون بيراموف سے جنگ بندی کے انتظامات کے لیے 3 مرتبہ ملاقات کی تھی لیکن ہر کوشش فوراً ہی ناکام ہوگئی۔
نیگورنو کاراباخ پر25 سال سے جاری لڑائی ایک بار پھر 27 ستمبر کو اس وقت شروع ہوئی جب آرمینیائی قوم نے تمام پہاڑی علاقوں پر فوجی کنٹرول کرکے آذربائیجان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔
تاہم جب بندوقیں خاموش ہوئیں تو وہ بہت سا محصور علاقہ کھو چکے تھے، جس میں ان کا دوسرا شہر شوشی بھی شامل تھا جسے آذری شوشا کہتے ہیں اور اس سے ملحقہ علاقہ بھی شامل ہے۔
وزیر اعظم نکول پشینان کا نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ اگر آرمینیا شوشی کے ساتھ ساتھ نیگورنو کاراباخ کے ارد گرد کے 7 علاقوں میں رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیتا تو جنگ سے بچا جاسکتا تھا ‘لیکن ہم نے جنگ کا چیلنج لیا’۔
جس کے فوراً بعد ہی وزارت خارجہ کی ترجمان انا ناغدلیان نے فیس بک پر مختصراً لکھا کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کی کسی بھی سطح پر ایجنڈے میں شوشی سے دستبرداری شامل نہیں تھی۔
وزیراعظم نکول پشینان کا مزید کہنا تھا کہ لاچین ریجن سے گرزنے والی سڑک جو کہ نیگورنو کاراباخ اور آرمینیا کے ریاستی علاقے کو منسلک کرتی ہے پیر کے روز کھول دی جائے گی اور محصور علاقے کے متعدد دربدر ہونے والے رہائشی اپنے گھروں کو لوٹ رہے۔
دوسری جانب کریملن نے بتایا کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز ٹیلی فون پر اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئیل میکرون سے نیگورنوکاراباخ کی صورتحال پر بات کی تھی۔
دونوں رہنماوں کا کہنا تھا کہ جنوبی قفقاز خطے میں صورتحال عمومی طور پر مستحکم ہے اور اب وقت ہے کہ انسانی مسائل بشمول مہاجرین کی واپسی اور عیسائی کلیساؤں اور خانقاہوں کو محفوظ کرنے پر توجہ دی جائے۔