کرسٹوفر کریبز نے سی آئی ایس اے کی سرکاری ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا‘ موجودہ امریکی صدر اوول آفس چھوڑنے سے پہلے محکمہ دفاع‘سی آئی اے ‘ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سیکورٹی سمیت اہم اداروں میں اپنے حامیوں کی تعیناتی چاہتے ہیں تاکہ وہ وائٹ ہاﺅس سے باہر رہ کر بھی نئی انتظامیہ کی راہ میں روڑے اٹکا سکیں. امریکی ادارے کی خوفناک انکشافات پر مبنی رپورٹ
واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری ویب سائٹ پر انتخابات کو شفاف قرار دینے کے بیان پر سائبر سیکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سیکورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے)کے سربراہ کرسٹوفرکو نوکری سے برخاست کردیا ہے یہ ادارہ امریکی کی داخلی سیکورٹی امور سے متعلق محکمے ”ہوم لینڈ سیکورٹی“کے ماتحت قائم کیا گیا تھا.امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پغام میں کہا ہے کہ وہ سائبرسیکورٹی ادارے کے سربراہ کو صدارتی انتخاب سے متعلق ان کے حالیہ بیان کی بنیاد پر فارغ کر رہے ہیں.
صدر ٹرمپ کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ کرسٹوفر نے الیکشن سے متعلق بہت غلط بیانی کی صدر نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ 3 نومبر کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور دھاندلی ہوئی تھی ‘صدر نے الزام لگایا کہ انتخابات میں مردوں نے ووٹ ڈالے، مبصرین کو انتخابی عمل کے جائزے کی اجازت نہیں دی گئی، ووٹنگ مشینیں خراب تھیں جنہوں نے انہیں ملنے والے ووٹوں کو بائیڈن کے ووٹ قرار دے دیا اور وقت گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی.
ٹوئٹر نے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ پر انتباہی نوٹس لگا دیا ہے اپنی برطرفی کے بعد کرسٹوفر کریبز نے اپنے ایک نئے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے ٹوئٹ کی کہ انہیں اپنے کام پر فخر ہے ہم نے سب ٹھیک کیا کرسٹوفر کریبز حالیہ دنوں میں امریکی صدارتی انتخاب کے دوران ووٹر فراڈ کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اپنی برطرفی سے قبل کرسٹوفر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی یا فراڈ کے الزامات سے متعلق الیکشن کی سیکورٹی کے 59 ماہرین کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے کوئی ثبوت نہیں اور یہ تیکنیکی طور پر بے ربط ہیں.واضح رہے کہ امریکا کے تکنیکی ‘سیاسی اورسیکورٹی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ انتخابات میں دھاندلی یا بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے کئی ریاستوں کی عدالتوں نے جب دھاندلی کے الزامات کے تحت دائرمقدمات کی سماعت کے دوران ثبوت فراہم کرنے کی بات کی تو ری پبلکن امیدوار کے وکلاءکے کوئی ثبوت پیش نہیںکرسکے حتی کہ ریاست مشی گن کی ایک عدالت میں سماعت کے دوارن جج نے ٹرمپ کے وکیل کو بغیر ثبوتوں کے کیس دائر کرنے پر عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا.تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرسٹوفر کا یہ ٹوئٹ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور اسی ٹوئٹ کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں عہدے سے فارغ کرنے کا اعلان کیا یاد رہے کہ صدر ٹرمپ تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے بارے میں مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے تاہم انہوں نے اپنے دعووں سے متعلق اب تک کوئی قابل ذکر ثبوت فراہم نہیں کیا ہے.صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے سے ہی کورونا وبا کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے بڑے پیمانے پر ہونے والی ووٹنگ میں فراڈ کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے جنہیں بیشتر حلقوں نے مسترد کردیا تھا‘ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کے اب تک ایسے شواہد نہیں پیش کیے ہیں جن کا انہیں عدالتوں میں فائدہ پہنچے لہذا قوی امکان ہے کہ عدالتوں میں بھی انہیں شکست کا سامنا ہی کرنا پڑے گا.ادھر ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکے بعد دیگرے کئی لوگوں کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر امریکہ کے خفیہ اداروں اور سکیورٹی کمیونٹی میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے. رپورٹ کے مطابق جو لوگ ”جاسوسی کی دنیا“سے منسلک نہیں ہیں انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یہ شاید موجودہ صدر کی جانب سے اپنی طاقت کو نہ چھوڑنے کی ایک کوشش ہے لیکن وہ جو اس دنیا میں ہی رہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ذاتی انتقام پر مبنی اقدام ہے جو کہ صدر ٹرمپ کے دور صدارت کا خاصہ رہا ہے.ماہرین کا کہنا ہے کہ صدارت کی منتقلی کے دوران ایسے اقدام بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیںکئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پینٹاگون کی قیادت میں سے متعدد سویلین افراد کو نوکری سے نکال دینا شاید ایک شروعات ہے کچھ معاملات میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے صدر کے فیصلے ہیں جو اپنی صدارت کے آخری دنوں میں اپنے پالیسی اہداف کو پورا کرنے کے خواہشمند ہیں اور ان لوگوں کو ہٹانا چاہتے ہیں جو ان کے راستے میں رکاوٹ تھے جیسے وہ لوگ جو افغانستان سے فوج نکالنے کے خلاف ہیں.لیکن کئی مبصرین کو ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدامات ایک چھپے ہوئے غیض و غضب کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ ایک طویل جنگ کا آخری مرحلہ ہیں صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں امریکہ کے قومی سلامتی کے اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ ”ڈیپ سٹیٹ“ ہیں اور انھیں صدارت سے ہٹانے کی سازش میں مصروف ہیں. امریکی خفیہ اداروں نے اپنی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ روس نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی اور اس معاملے کی تحقیقات بھی شروع کی گئیں مگر صدر نے سینیٹ میں ری پبلکنزکی اکثریت اور صدارتی حکم نامے کی دھمکی دے کر اس کاروائی کو معطل کروانے میں کامیاب رہے تھے البتہ صدر ٹرمپ اس پر خفا تھے کیونکہ یہ انہیں ان کی اپنی صدارت کے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ شاید اس سے ان کی جیت پر سوالیہ نشان اٹھائے جائیں.اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی صدارت کے آغاز سے ہی ان اداروں کے خلاف جارحانہ مزاج اپنائے رکھا اور پھر کبھی اسے تبدیل نہیں کیا گذشتہ چند ماہ میں انہوں نے ان معلومات کو عوام کے سامنے ظاہر کرنے پر زور دیا جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے خفیہ اداروں کی روس کے بارے میں تجزیہ غلط ثابت ہو سکتا ہے وائٹ ہاﺅس نے حال ہی میں اپنے ایک سیاسی حلیف رچرڈ گرینل کو ڈائریکٹر قومی انٹیلیجنس کا عہدہ سونپا ہے جنہوں نے صدر ٹرمپ کے بیانیے کو مزید تقویت دی ہے لیکن انہیں مزاحمت کا سامنا ہے.دوسری جانب سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپیل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی نوکری بھی خطرے میں ہے اور ان کے سر پر یہ تلوار اس وقت سے لٹک رہی ہے جب سے وہ اس عہدے پر ہیں جینا کے ناقد کہتے ہیں کہ وہ وائٹ ہاﺅس کے بہت قریب ہیں اور اس کے بارے وہ مثال دیتے ہیں کہ جینا نے سٹیٹ آف یونین کی تقریب میں شرکت کی تھی اور صدر ٹرمپ کی تقریر پر تالیاں بھی بجائیں تھیں.لیکن جینا کے حامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت احتیاط سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں تاکہ وہ صدر ٹرمپ سے دشمنی بھی مول نہ لیں اور سی آئی اے کو سیاسی فریق بننے سے بچائیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ اگر انھیں ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ کسی ایسے فرد کو لایا جائے گا جو صدر ٹرمپ کی طرفداری کرے. واضح رہے کہ جینا ہاسپیل کی جانب سے روسی مداخلت کے بارے میں خفیہ مواد سامنے نہ لانے سے صدر ٹرمپ کے حامیوں نے ان پر تنقید کی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ متنازع فیصلہ ہو گا اگر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرس رے کو ان کی نوکری سے نکال دیا جائے کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایف بی آئی سے صدارتی انتخاب میں حریف جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بیرون ملک کاروباری تعلقات کے بارے میں تفتیش نہ کرنے کی وجہ سے سخت ناراض ہیں.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ایف بی آئی ان انتخاب میں ویسا کردار ادا کرے جب 2016 کے انتخاب میں اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی نے ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں تفتیش کی تھی اور اس کی وجہ سے انہیں اپنی صدارتی مہم کے آخر میں نقصان ہوا تھا اور وہ انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست کھا گئی تھیں.عمومی طور پر سی آئی اے کے سربراہ کو نئے آنے والے صدر تبدیل کر دیتے ہیں ایف بی آئی کے سربراہ کو عام طور پر دس سال کے لیے مقرر کیا جاتا ہے سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کرسٹوفر کریبز بہت اچھی ساکھ ہونے کے باوجودنوکری سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں کہا جارہا ہے کہ امریکا کے خفیہ اداروں میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور اس کا 20جنوری تک برقراررہنے کا امکان ہے.رپورٹ کے مطابق دنیا کی سپرپاور کے خفیہ اداروں کو ایک اور خدشہ ہے کہ پینٹاگون میں اہم عہدوں پر سیاسی نوعیت کی تعیناتی ہوئی اور ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو قومی سلامتی کے اداروں میں شامل کر دیا جائے جو نئے صدر کے آنے کے باوجود صدر ٹرمپ کے لیے کردار ادا کرتے رہیں. اس بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ شاید وفادار کارکنوں کو نوازنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ دور صدارت کے آخری مراحل میں اہم عہدوں پر کچھ عرصے کام کر لیں اور اس عرصے میں مزید متنازع پالیسیوں کو اختیار کریں یہ بہت ممکن ہے کہ نئے صدر اپنے عہدے پر آنے کے بعد ان کئی افراد کو تبدیل کر دیں لیکن اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں.جو بائیڈن کی انتخاب میں جیت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ابھی تک روزانہ دی جانے والی خفیہ بریفینگ نہ دی جائیں جبکہ ماضی میں روایت رہی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے فاتح امیدوار کو اسی طرح خفیہ بریفینگز دینا شروع کردیتے تھے جیسے کہ وہ رخصت ہونے والے صدر کو دیتے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ سلسلے زیادہ دیر چلا تو اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے.واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 نومبر ۔2020ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری ویب سائٹ پر انتخابات کو شفاف قرار دینے کے بیان پر سائبر سیکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سیکورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے)کے سربراہ کرسٹوفرکو نوکری سے برخاست کردیا ہے یہ ادارہ امریکی کی داخلی سیکورٹی امور سے متعلق محکمے ”ہوم لینڈ سیکورٹی“کے ماتحت قائم کیا گیا تھا.امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پغام میں کہا ہے کہ وہ سائبرسیکورٹی ادارے کے سربراہ کو صدارتی انتخاب سے متعلق ان کے حالیہ بیان کی بنیاد پر فارغ کر رہے ہیں.
صدر ٹرمپ کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ کرسٹوفر نے الیکشن سے متعلق بہت غلط بیانی کی صدر نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ 3 نومبر کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور دھاندلی ہوئی تھی ‘صدر نے الزام لگایا کہ انتخابات میں مردوں نے ووٹ ڈالے، مبصرین کو انتخابی عمل کے جائزے کی اجازت نہیں دی گئی، ووٹنگ مشینیں خراب تھیں جنہوں نے انہیں ملنے والے ووٹوں کو بائیڈن کے ووٹ قرار دے دیا اور وقت گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی.
ٹوئٹر نے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ پر انتباہی نوٹس لگا دیا ہے اپنی برطرفی کے بعد کرسٹوفر کریبز نے اپنے ایک نئے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاﺅنٹ سے ٹوئٹ کی کہ انہیں اپنے کام پر فخر ہے ہم نے سب ٹھیک کیا کرسٹوفر کریبز حالیہ دنوں میں امریکی صدارتی انتخاب کے دوران ووٹر فراڈ کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اپنی برطرفی سے قبل کرسٹوفر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی یا فراڈ کے الزامات سے متعلق الیکشن کی سیکورٹی کے 59 ماہرین کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے کوئی ثبوت نہیں اور یہ تیکنیکی طور پر بے ربط ہیں.واضح رہے کہ امریکا کے تکنیکی ‘سیاسی اورسیکورٹی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ انتخابات میں دھاندلی یا بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے کئی ریاستوں کی عدالتوں نے جب دھاندلی کے الزامات کے تحت دائرمقدمات کی سماعت کے دوران ثبوت فراہم کرنے کی بات کی تو ری پبلکن امیدوار کے وکلاءکے کوئی ثبوت پیش نہیںکرسکے حتی کہ ریاست مشی گن کی ایک عدالت میں سماعت کے دوارن جج نے ٹرمپ کے وکیل کو بغیر ثبوتوں کے کیس دائر کرنے پر عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا.تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرسٹوفر کا یہ ٹوئٹ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور اسی ٹوئٹ کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں عہدے سے فارغ کرنے کا اعلان کیا یاد رہے کہ صدر ٹرمپ تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے بارے میں مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے تاہم انہوں نے اپنے دعووں سے متعلق اب تک کوئی قابل ذکر ثبوت فراہم نہیں کیا ہے.صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے سے ہی کورونا وبا کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے بڑے پیمانے پر ہونے والی ووٹنگ میں فراڈ کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے جنہیں بیشتر حلقوں نے مسترد کردیا تھا‘ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات کے اب تک ایسے شواہد نہیں پیش کیے ہیں جن کا انہیں عدالتوں میں فائدہ پہنچے لہذا قوی امکان ہے کہ عدالتوں میں بھی انہیں شکست کا سامنا ہی کرنا پڑے گا.ادھر ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکے بعد دیگرے کئی لوگوں کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر امریکہ کے خفیہ اداروں اور سکیورٹی کمیونٹی میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے. رپورٹ کے مطابق جو لوگ ”جاسوسی کی دنیا“سے منسلک نہیں ہیں انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یہ شاید موجودہ صدر کی جانب سے اپنی طاقت کو نہ چھوڑنے کی ایک کوشش ہے لیکن وہ جو اس دنیا میں ہی رہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ذاتی انتقام پر مبنی اقدام ہے جو کہ صدر ٹرمپ کے دور صدارت کا خاصہ رہا ہے.ماہرین کا کہنا ہے کہ صدارت کی منتقلی کے دوران ایسے اقدام بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیںکئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پینٹاگون کی قیادت میں سے متعدد سویلین افراد کو نوکری سے نکال دینا شاید ایک شروعات ہے کچھ معاملات میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے صدر کے فیصلے ہیں جو اپنی صدارت کے آخری دنوں میں اپنے پالیسی اہداف کو پورا کرنے کے خواہشمند ہیں اور ان لوگوں کو ہٹانا چاہتے ہیں جو ان کے راستے میں رکاوٹ تھے جیسے وہ لوگ جو افغانستان سے فوج نکالنے کے خلاف ہیں.لیکن کئی مبصرین کو ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدامات ایک چھپے ہوئے غیض و غضب کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ ایک طویل جنگ کا آخری مرحلہ ہیں صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں امریکہ کے قومی سلامتی کے اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ ”ڈیپ سٹیٹ“ ہیں اور انھیں صدارت سے ہٹانے کی سازش میں مصروف ہیں. امریکی خفیہ اداروں نے اپنی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ روس نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی اور اس معاملے کی تحقیقات بھی شروع کی گئیں مگر صدر نے سینیٹ میں ری پبلکنزکی اکثریت اور صدارتی حکم نامے کی دھمکی دے کر اس کاروائی کو معطل کروانے میں کامیاب رہے تھے البتہ صدر ٹرمپ اس پر خفا تھے کیونکہ یہ انہیں ان کی اپنی صدارت کے لیے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ شاید اس سے ان کی جیت پر سوالیہ نشان اٹھائے جائیں.اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی صدارت کے آغاز سے ہی ان اداروں کے خلاف جارحانہ مزاج اپنائے رکھا اور پھر کبھی اسے تبدیل نہیں کیا گذشتہ چند ماہ میں انہوں نے ان معلومات کو عوام کے سامنے ظاہر کرنے پر زور دیا جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے خفیہ اداروں کی روس کے بارے میں تجزیہ غلط ثابت ہو سکتا ہے وائٹ ہاﺅس نے حال ہی میں اپنے ایک سیاسی حلیف رچرڈ گرینل کو ڈائریکٹر قومی انٹیلیجنس کا عہدہ سونپا ہے جنہوں نے صدر ٹرمپ کے بیانیے کو مزید تقویت دی ہے لیکن انہیں مزاحمت کا سامنا ہے.دوسری جانب سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپیل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی نوکری بھی خطرے میں ہے اور ان کے سر پر یہ تلوار اس وقت سے لٹک رہی ہے جب سے وہ اس عہدے پر ہیں جینا کے ناقد کہتے ہیں کہ وہ وائٹ ہاﺅس کے بہت قریب ہیں اور اس کے بارے وہ مثال دیتے ہیں کہ جینا نے سٹیٹ آف یونین کی تقریب میں شرکت کی تھی اور صدر ٹرمپ کی تقریر پر تالیاں بھی بجائیں تھیں.لیکن جینا کے حامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت احتیاط سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں تاکہ وہ صدر ٹرمپ سے دشمنی بھی مول نہ لیں اور سی آئی اے کو سیاسی فریق بننے سے بچائیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ اگر انھیں ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ کسی ایسے فرد کو لایا جائے گا جو صدر ٹرمپ کی طرفداری کرے. واضح رہے کہ جینا ہاسپیل کی جانب سے روسی مداخلت کے بارے میں خفیہ مواد سامنے نہ لانے سے صدر ٹرمپ کے حامیوں نے ان پر تنقید کی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ متنازع فیصلہ ہو گا اگر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرس رے کو ان کی نوکری سے نکال دیا جائے کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایف بی آئی سے صدارتی انتخاب میں حریف جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بیرون ملک کاروباری تعلقات کے بارے میں تفتیش نہ کرنے کی وجہ سے سخت ناراض ہیں.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ایف بی آئی ان انتخاب میں ویسا کردار ادا کرے جب 2016 کے انتخاب میں اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی نے ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں تفتیش کی تھی اور اس کی وجہ سے انہیں اپنی صدارتی مہم کے آخر میں نقصان ہوا تھا اور وہ انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست کھا گئی تھیں.عمومی طور پر سی آئی اے کے سربراہ کو نئے آنے والے صدر تبدیل کر دیتے ہیں ایف بی آئی کے سربراہ کو عام طور پر دس سال کے لیے مقرر کیا جاتا ہے سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کرسٹوفر کریبز بہت اچھی ساکھ ہونے کے باوجودنوکری سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں کہا جارہا ہے کہ امریکا کے خفیہ اداروں میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور اس کا 20جنوری تک برقراررہنے کا امکان ہے.رپورٹ کے مطابق دنیا کی سپرپاور کے خفیہ اداروں کو ایک اور خدشہ ہے کہ پینٹاگون میں اہم عہدوں پر سیاسی نوعیت کی تعیناتی ہوئی اور ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو قومی سلامتی کے اداروں میں شامل کر دیا جائے جو نئے صدر کے آنے کے باوجود صدر ٹرمپ کے لیے کردار ادا کرتے رہیں. اس بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ شاید وفادار کارکنوں کو نوازنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ دور صدارت کے آخری مراحل میں اہم عہدوں پر کچھ عرصے کام کر لیں اور اس عرصے میں مزید متنازع پالیسیوں کو اختیار کریں یہ بہت ممکن ہے کہ نئے صدر اپنے عہدے پر آنے کے بعد ان کئی افراد کو تبدیل کر دیں لیکن اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں.جو بائیڈن کی انتخاب میں جیت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ابھی تک روزانہ دی جانے والی خفیہ بریفینگ نہ دی جائیں جبکہ ماضی میں روایت رہی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے فاتح امیدوار کو اسی طرح خفیہ بریفینگز دینا شروع کردیتے تھے جیسے کہ وہ رخصت ہونے والے صدر کو دیتے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ سلسلے زیادہ دیر چلا تو اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے.