اسلام آباد: سینیٹ الیکشن کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹیرنز اوپن بیلٹ کی مخالفت کس بنیاد پر کریں گے اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد موجودہ سسٹم چلتا رہے، موجودہ سسٹم کے چلنے کا مطلب یہ ہے اراکین کی خرید و فروخت جاری رہے۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی تو مسئلہ کیا ہے؟ پہلے دن سے مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا، کوئی قانون منتحب رکن کو پارٹی امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند نہیں کرتا، ووٹ فروخت کرنے کے شواہد پر ہی کوئی کارروائی ہوسکتی ہے، اوپن ووٹنگ میں بھی ووٹ فروخت کرنے کے شواہد نہ ہوں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔
جس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہااوپن بیلٹ کا مقصد سیاستدانوں کو گندا کرنا نہیں ہے۔حکومت صرف انتخابی عمل کی شفافیت چاہتی ہے۔ کسی کی نااہلی چاہتے ہیں نہ ہی کسی منتحب رکن کے خلاف کارروائی کرنا۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے انکے نمائندے نے کس کو ووٹ دیا، عوام کو علم ہونا چاہیے کس نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلیت نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہو گی، پارٹی کو چاہیے کہ عوام کو بتائے کس رکن نے دھوکا دیا۔
چیف جسٹس نے کہا ووٹرز تو کہتے ہیں رکن اسمبلی ہماری خدمت کے لیے ہیں۔عوام اراکین اسمبلی کو اس لیے منتحب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں۔
جسٹس یحی خان آفریدی نے کہاریفرنس پر عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں ہوگی، حکومت کو ہر صورت قانون سازی کرنا ہوگی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اٹھارہویں ترمیم میں بہت کچھ تبدیل کیا گیا، مگر سینیٹ کے سیکرٹ بیلٹ کو تبدیل نہیں کیا گیا اس کی کیا وجہ تھی؟۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہی تو میرا شکوہ ہے۔
چیف جسٹس پا کستان نے کہا اوپن بیلٹ کی مخالفت کس بنیاد پر کریں گے اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد موجودہ سسٹم چلتا رہے۔موجودہ سسٹم کے چلنے کا مطلب یہ ہے اراکین کی خرید و فروخت جاری رہے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی