پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ حکومت گھبرا گئی، اپنے ارکان پر عدم اعتمادکر دیا،آرڈیننس کی بھرپورمخالفت کرینگے ۔اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی ملاقات میں آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن شوآف ہینڈ سے کرانے کے اقدام کی شدید مخالفت کافیصلہ کیا گیا ،دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا جا سکتا،مریم نواز نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پتا چل جائے گا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے ، تحریک عدم اعتماد کا آپشن مسترد نہیں کیا،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آرڈیننس کے معاملے پر عدالت بھی جانا پڑا تو جائیں گے ۔ملاقات میں اپوزیشن کے لانگ مارچ کے طریقہ کار اور دورانیے پر گفتگو ہوئی۔طے پایا کہ لانگ مارچ سے متعلق تمام تجاویز کا سٹیئرنگ کمیٹی میں جائزہ لیکر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ دونوں رہنمائو ں کی ملاقات میں لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے پر پہلا پڑا ؤفیض آباد پر ڈالنے کی تجویز سامنے آئی ، ملاقات میں سینیٹ الیکشن میں مشترکہ امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کی حکمت عملی پر بھی گفتگو ہوئی ۔تحریک عدم اعتماد پہلے پنجاب سے لائی جائے یا بلوچستان سے ، اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔ صدارتی آرڈیننس کے آئینی اور قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیکر اسے عدالت میں چیلنج کرنے بھی مشاورت ہوئی ۔ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ڈی ایم کے فیصلوں سے گھبراہٹ کا شکار ہے ،آرڈیننس جاری کر کے اپنے ہی اراکین پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے ، سپریم کورٹ کو متنازع بنانے کیلئے اسے ریفرنس بھیجاگیا، تحریک انصاف کی دھاندلی کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔عمران خان جب بھی بات کرتے ہیں کوئی نہ کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں گزشتہ روز جو بات انہوں نے کی اگر ہم کرتے تو سکیورٹی رسک بن جاتے ، حکومت ٹافیوں کی طرح این آر او بانٹ رہی ہے ،عمران خان پی ڈی ایم سے این آر او مانگ رہے ہیں ،ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے ۔ حکومت آرڈیننس جاری کرکے سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانا چاہتی ہے اور خفیہ بیلٹنگ کے حق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،یہ سیاسی اشار ہ ہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے فیصلوں کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پی ڈی ایم کے سینیٹ الیکشن لڑنے کے اعلان سے گھبرائی ہوئی ہے اور اب اداروں کو متنازعہ بنا کر عمران خان کیلئے دھاندلی کرائی جارہی ہے ۔ وہ پورے ملک کو بتارہے ہیں کہ ہم انتخابات سے قبل ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں عمران خان کیلئے دھاندلی کریں گے ۔ جمہوری ملک میں آئین میں تبدیلی کا ایک پارلیمانی طریقہ کار ہوتا ہے ، اگر حکومت نے آئین میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر سنجیدگی سے کوشش کر نی چاہئے تھی ۔ ا س پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی نہ مختلف جماعتوں سے کوئی سنجیدہ بات چیت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے جمہوری طریقہ کار نہیں اپنایا اور سپریم کورٹ کو متنازع بنانے کا قدم اٹھاتے ہوئے اسے ریفرنس بھیجا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کو ایسی پوزیشن میں ڈالا ہے جہاں وہ جو بھی فیصلہ لے وہ متنازع فیصلہ ہوگا۔ آئین میں ترمیم صرف پارلیمان کرسکتی ہے ۔جہاں یہ ریفرنس عدالت میں تھا وہیں اچانک کمیٹی کے ذریعے اسے قومی اسمبلی میں لایا گیا، قومی اسمبلی میں بات تک نہیں کرنے دی گئی اور اراکین پارلیمنٹ پر حملے کئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ اس شرمناک واقعے کے بعد ایک اور قدم اٹھایا گیا ہے جس سے ہمارے ادارے ، پارلیمان اور سپریم کورٹ کو متنازع بنایا جائے گا۔ جب ایک معاملہ عدالت میں ہے تو اس قدم کو اٹھانے کا مقصد کیا ہے ، حکومت مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اداروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تحریک انصاف کی دھاندلی کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگی، حکومت بچگانہ حرکت کرکے نہ صرف ادارے بلکہ پورے سینیٹ انتخابات کو متنازع بنانے جارہی ہے ۔ حکومت کا ارادہ سلیکٹڈ پارٹی کے حق میں سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کرنا ہے ۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ دھاندلی جیسے مسئلوں کو ہمیشہ کیلئے حل کریں اور ان میں اصلاحات لائی جائیں۔ تحریک عدم اعتماد کسی بھی وزیر اعظم کو ہٹانے کیلئے جمہوری طریقہ کار ہے ۔پی ڈی ایم اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کے حوالے سے بلاول بھٹو نے کہا کہ اراکین کے استعفے سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس موجود ہیں اور یہ معاملہ آج بھی پی ڈی ایم میں زیر بحث ہے ۔ سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لیتے تو تحریک انصاف کو بھرپور اکثریت مل جاتی اس وجہ سے ہم نے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ توہوا کہ عمران خان کا پسینہ نکل رہا ہے اور وہ چھلانگیں مار کر آئین تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں، سینیٹ انتخابات قریب ہیں، سب دیکھیں گے کہ کیا ہوگا۔18ویں آئینی ترمیم کو بدلنے کے سوال پر چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 1973 کے آئین کو تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع سے چل رہا ہے ، ہم نے شروع سے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کرنے کی سازش چل رہی ہے ۔ اب تک یہ کوشش ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گی تاہم جس طرح سے آرڈیننس کے ذریعے عمران خان سینیٹ ا لیکشن میں اوپن بیلٹ کی کوشش کر رہے ہیں اسی طرح سے وہ آئین کو تبدیل کرنے کا سوچتے ہیں تو ایسا نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی حکومت سے ملاقات بارے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے ممبران پر فخر کرتا ہوں کہ اتنے دباؤ کے باوجود بھی انہوں نے کبھی مجھے مایوس نہیں کیا۔ ہم سب پی ڈی ایم کے فیصلے کے پابند ہیں ۔عمران خان کو ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا اور وہ دن جلد آئے گا۔ ہم پی ڈی ایم کو سافٹ لائن پر نہیں لائے ،ہم صرف اور صرف عوام کی طاقت پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو جمہوریت کا سبق نہ سکھایا جائے ،ہم مل کر فیصلے کر رہے ہیں،کوئی دبا ؤنہیں ۔ آصف زرداری نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا تھا کہ بلوچستان حکومت کو گراؤنگا۔بلاول نے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں کے لا پتا ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، ایک بیان میں بلاول بھٹونے کہا کہ محمد علی سدپارہ پاکستان کے قابل فخر ہیرو ہیں، علی سدپارہ نے ملاقات میں کے ٹو سر کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، علی سدپارہ کی تلاش اولین ترجیح ہونی چاہیے ،بلاول بھٹو نے کہا کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی بحفاظت واپسی کے لئے دعاگو ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے سینیٹ انتخابات کیلئے صدارتی آرڈیننس مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت پارلیمنٹ کی بے توقیری کررہی ہے ۔آرڈیننس کا نفاذ صرف نئے پاکستان ہی میں ممکن ہے ۔ اپنے بیان میں اے این پی سربراہ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کے باوجود آرڈیننس کا فیصلہ گھبراہٹ اور نااہلی کا اعتراف ہے ۔آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔آرڈیننس کے ذریعے آئین میں ترمیم نہیں کی جاسکتی، ان میں ہمت ہے تو قانون سازی کریں۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ انکی نااہلی عیاں ہوجائیگی۔