شفقت اللہ مشتاق
ایک دفعہ کچھ صحافی دوست میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ کسی وقت کچھ اپنے بارے میں بھی قلمبند کریں۔ مجھے آئیڈیا بہت اچھا لگا۔میں نے سچا اس سے پہلے کہ لوگ میرے بارے میں لکھنا شروع کر دیں اور میرا کچا چٹھا کھل جائے خود ہی اپنے بارے میں لکھنے میں کیا حرج ہے۔ پھر اپنے آپ ہی ایک بیانیہ بنا دیا جائے۔ بیانیے تھوڑا ہتھوڑوں سے بنتے ہیں یہ خود ہی بنتے جڑتے رہتے ہیں لوگوں کو بتا ہی دینا چاہیے کہ ہم بڑے ہی اچھے لوگ ہیں آستینوں میں سانپ رکھتے ہیں ویسے دل میں بات بھی رکھتے ہیں موقعہ محل دیکھ کر منہ ملاحظہ بھی رکھتے ہیں کبھی کبھی اپنے جیسے منہ زوروں سے ہماری منہ ماری بھی ہوجاتی ہے اور موقعہ کی مناسبت سے منہ بند کرنا بھی خوب جانتے ہیں اور کبھی کبھی تو ہم منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو مذکورہ بیانیہ کا بھی تیاپانچہ کردیں گی تو کیا ہوا زیادہ سے زیادہ بیانیہ ہی بدل جائے گا نا۔ لوگوں کی سوچ میں تنّوع ہے کچھ پہلے کو مانیں گے اور کچھ موخر الّذکر کے حق میں دلیلیں دیں گے اور اسی کشمکش میں بات رولے گھولے میں پڑ جائیگی اور پھر کچھ دیر بعد ویسے ہی کھوہ کھاتے میں پڑ جائیگی۔ ویسے بھی تو ایک دن کھاتے کھلنے ہیں اور پھر جزا سزا کا عمل بھی پورا ہونا ہے۔سب لوگوں کے ساتھ کب بندہ پورا آسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ “دھوڑ” اڑا دی جائے تاکہ کچھ دکھائی ہی نہ دے۔ چیزیں صاف نظر آنے سے اچھے خاصے لوگوں کی “دھوڑ” اڑجاتی ہے اور بڑے بڑے چہروں سے نقاب اتر جاتے ہیں بھلا ہو کرونا کا جس کی وجہ سے نقاب اتارنا جرم قابل دست اندازی پولیس ہو گیا ہے اور نقاب کے بغیر بندہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتا ہے۔ کمال اتفاق ہے کہ نقاب پوش گرفتاری سے مکمل محفوظ بلکہ مامون بھی ہو گئے ہیں کرونا کے وار اور ڈاکو کے وار میں بڑا فرق ہے۔ ویسے تو امریکہ اور چین کی درمیان وار کا قوی امکان ہے لیکن قوی اب بہت کمزور ہو گیا ہے اور ڈراموں میں کم کم نظر آتا ہے۔ اب اللہ جانتا ہے کہ قوی کم کم نظر آتا ہے یا قوی کو کم کم نظر آتا ہے۔ اب شاید قوی قوی ہی نہیں رہا امریکہ اور چین دونوں حالات کی نزاکت کے پیش نظر محتاط ہو گئے ہیں۔ محتاط رویے ہی وقت کی اہم ضرورت ہیں ورنہ ایٹم بم تو ہر دو فریق کے پاس تیار پڑا ہے اور کسی وقت بھی شرلی پٹاخوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں لیکن نقصان کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہو گا۔ مشکل کام کرکے ہی تو بندہ مشکل میں پڑ جاتا ہے جیسے امریکہ پاکستان سے اڈے مانگ کر مشکل میں پڑ گیا ہے۔ اب تو تیسرے کے آنے کا بھی امکان نہیں پہلے ہی تین ہیں امریکہ، پاکستان اور افغانستان۔ میری طرح کسی کو بھی سمجھ نہیں لگ رہی ہے۔
امریکہ پاکستان اور افغانستان جانے اور انکا کام جانے۔ میں تو اپنی بات کروں یہی میرے مذکورہ صحافی دوستوں کا مجھ سے تقاضہ ہے۔ کاش ہمیں تقاضے پورے کرنے آجاتے تو آج ہم مقروض نہ ہوتے۔ بہرحال میں اپنے بارے میں لکھنے کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کروں گا۔ چونکہ جمہوریت کا دور ہے لہٰذا پہلے جمہورے بچوں سے اپنے بارے میں رائے لیتے ہیں یک لخت سب نے تابڑ توڑ حملے شروع کردئیے ہیں کسی نے کہا میں “میسنا” ہوں کوئی بولا میں ایک شاطر اور چالاک شخص ہوں، ایک کے نزدیک میں باتوں ہی باتوں میں لوگوں کو موہ لیتا ہوں۔ کوئی مجھے پبلک ڈیلنگ کا ماسٹر سمجھنے لگا اسی طرح میں درویش،صوفی اور سادھو بھی سمجھا گیا۔ شاعروں میں افسر اور افسروں میں شاعر سمجھنے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔نکما،نکھٹو،بزدل اور یاروں کا یار کہنے والے بھی دائیں بائیں پھرتے رہے اور بغلیں بجاتے رہے،کجھ مجھے بس انسان سمجھتے تھے اور یقینا انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان خسارے میں بھی ہے۔ کسی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ برے وقت سے بچائے۔ یہ تھا بھان متی کا کنبہ جو مجھے پتہ نہیں کیا کیا سمجھتا تھا ویسے ان کا کوئی قصور نہیں لوگ مجھے مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے حساب سے اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور یوں یہ کمال کرتے ہیں ان کی مہربانی‘ چلو میرے بارے میں سوچتے تو ہیں میں نے تو آج تک اپنے بارے میں سوچا ہی نہیں آئینہ دیکھ کر بلا سوچے سمجھے کنگھی کر کے کسی کے لئے اپنے بال سنوار لیتا ہوں پیچھے مڑ کراس لئے نہیں دیکھتا کہ کہیں آگے کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جاؤں یوں میں کہیں آگا دوڑ پیچھا چوڑ کی عملی تفسیرہی نہ بن جاؤں۔ میرے اعمال اور اقوال میں زمین آسمان کا فرق ہے میری سوچ پر رجعت پسندی کے بڑے بڑے تالے لگے ہوئے ہیں اور ان تالوں کی چابیاں شر اور فتنوں کے گہرے سمندروں میں پھینک دی گئیں ہیں اور غوطے لگانا میرا مقدر بن چکا ہے۔ اب سوچتا ہوں میں کون ہوں اس بات کی سمجھ تو بلھے شاہ کو بھی نہیں لگی تھی جس کے پاس سوچنے کے لئے بڑا وقت تھا۔ میں نے تو نوکری بھی کرنا ہوتی ہے اور نوکری کو محفوظ کرنے کے لئے چاکری کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے نہیں تو پیڈا ایکٹ سے خیر کی توقع نہ رکھی جائے۔ ایکٹ رول آف لا کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور آرڈیننس زود رنج طبیعت کے حامل افراد کو راہ راست پر لانے کے لئے منصہ شہود پر آتے ہیں۔ویسے تو قوتوں کا لا متناہی سلسلہ ہے کچھ انسان کو بدنی طور پر مار دیتی ہیں تو کچھ انسان کو روحانی طور پر مار دیتی ہیں اور کچھ مکمل طور پر مار دیتی ہیں اس سارے عمل میں انسان کی تدبیر کا بھی عمل دخل ہے۔ اس نے مرنا تو ہے ہی اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنوں کے ہاتھوں مرتا ہے یا غیروں کے ہاتھوں۔ بعض اوقات وہ مرنے کی بجائے دونوں کے ساتھ ہاتھ بھی کر جاتا ہے۔ چوراں نوں پے گئے مور۔ مور نا چا کس نے دیکھا دیکھنے سے چیزیں نمایاں ہوتی ہیں اور میں نے نمایاں ہونے کے شوق میں چوّن سال گزار دیئے اور ابھی تک مجھے “کدھوں ” پار کوئی نہیں جانتا حالانکہ میں صبح سویرے نہا دھو کر اعلیٰ کپڑے زیب تن کرتا ہوں پرفیوم سے اپنے وجود کی کلی کھلاتا ہوں اور پھر آٹھ دس چیزوں کا ناشتہ کر کے ڈکار بھی نہیں مارتا بڑے بڑے لوگوں میں بیٹھ کر بڑا بننے کی سعیئ جمیلہ کرتا ہوں منزل کے قریب جا کر میری ٹانگ کھینچ دی جاتی ہے اور میں وہیں کا وہیں نہ تتر نہ بٹیر۔ ظاہری طور پر تو میں کولھو کا بیل ہوں جو گھوم پھر کر ایک ہی جگہ رہتا ہے۔ اب باطنی طور پر بھی پرواز کی جا سکتی ہے ہو سکتا ہے اندر بھی کوئی ہو اور وہ مجھے میری حقیقت بتا دے اور میں اپنے آپ کو جان کر اپنے صحافی دوستوں کا مطالبہ پورا کر سکوں۔
آؤ اپنے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں اُف اللہ! یہ توایک بحر بے کراں ہے۔ میرے خوبصورت چہرے نے مجھے رب کا شاہکار بنا دیا ہے۔میری آنکھوں نے مجھے قاتل حسینہ بنا رکھا ہے اور اگر میں سوچ کی عینک لگا لوں تو قیامت کبریٰ ہے۔ دانت میرے موتیوں کی لڑیاں ہیں اور غصے میں جب چاہوں ان کو پیس کر جذبات کا قیمہ بنا سکتا ہوں۔ میرے پھیپھڑے کام چھوڑ دیں تو سایہ دار شجر جھٹ میں سوکھ جائیں اور پھر میرا دل، اس کے سامنے تو سمندر کی گہرائی بھی مسکین لگتی ہے۔ ویسے زندگی میری کچھ نہیں لگتی بڑی بے وفا ہے اس کے نہ آنے کا پتہ ہے اور نہ جانے کا پتہ ہے۔ کاش کوئی میری اگلی منزل کا پتہ بتائے تاکہ اس پتہ پر میرے چاہنے والے بذریعہ خط و کتابت مجھ سے رابطہ رکھ سکیں رابطے بڑھانے سے روگ بھول جاتے ہیں اور فاصلے بڑھانے سے لوگ بھول جاتے ہیں۔ میں بھی تو اپنی اگلی پچھلی منزل بھول چکا ہوں میری سابقہ بھول چوک معاف کی جائے اور میری روح کو بدن پر غالب کردیا جائے پھر ہی میں اپنے بارے کچھ بتا سکوں گا۔ میرے ہم وطنو! میری ذات کی روح کو نہ مارو اس احسان کے بدلے میں میں تمہیں مٹی کو سونا بنا دوں گا یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر میں
ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭