خضر کلاسرا
بلاول بھٹو زرداری کدھر ہیں؟ میدان میں آئیں اور بات کریں،بلاول صاحب کہاں چلے گئے،آج جائیں آج جائیں، وغیرہ وغیرہ۔ پریس گیلری میں بیٹھے صحافی اس بات کو نوٹ کررہے تھے کہ تحریک انصاف کا مرکزی لیڈر و وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پورے جاہ وجلال کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو للکار رہا تھا۔ایوان میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے تلخی سے بھرے جملوں سے محسوس ہورہاتھا کہ وہ آج بلاول بھٹو زرداری کو آڑے ہاتھوں لینے کے لئے تیاری پکڑ چکے ہیں۔ آج بلاول کی سیاست جوکہ اس کو نواسہ کی حیثیت میں ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی ماں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملی تھی، اس کا آخری دن ہے؟ ایوان میں ملتان کا مخدوم تھاکہ خاموش ہونے پر تیارہی نہیں تھا۔ ادھر پیپلزپارٹی کے بنچوں سے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شاہ محمود قریشی کی طرف سے للکار پر ردعمل فطری تھا۔ وہ بھی ہوٹنگ کررہے تھے لیکن شاہ محمود قریشی مسلسل بضد تھاکہ بلاول بھٹو میدان میں آئیں مطلب ایوان میں آئیں۔ تحریک انصاف کے بعض وزراء بھی اس بات کو نوٹ کررہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا انداز گفتگو ایوان کے ماحول کو تلخی کی طرف دھکیل رہاہے اور وہی ہوگا کہ جوکہ اس بجٹ سیشن میں نوازلیگی ارکان اسمبلی اور تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے درمیان میں ہوچکاہے۔تحریک انصاف کے ارکان کی اکثریت ایوان میں نہیں چاہ رہی تھی کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی یوں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ نیا محاذ کھول کر اس دن ایوان کا ماحول خراب کریں، جس دن وزیراعظم عمران خان نے ایوان میں آنا ہے اور بجٹ اور دیگر اہم امور کے حوالے سے تقریر کرنی ہے۔
دوسری طرف اطلاعات تھیں کہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات ہوچکے تھے کہ دونوں اطراف سے ایسا ماحول پیدا کیاجائے کہ ہنگامہ آرائی اور شورشرابہ سے بچا جائے۔ خاص طورپر وزیراعظم عمران خان کی تقریر کو اپوزیشن بھی ایوان میں بیٹھ کرسماعت کرے تاکہ پچھلی دنوں ہونے والی کشیدگی کے اثرات میں کمی لائی جاسکے لیکن وزراء میں اس بات کی جرات نہیں ہورہی تھی کہ وہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو اس بات پر روک سکتے یاپھر کوئی چٹ یاپرچی دے کر سمجھا سکتے کہ مخدوم صاحب، جانے دیں، آج مناسب دن نہیں ہے کسی اور موقعہ پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ حساب برابر کرلیں گے۔ آج ایوان میں دنگل لگانے کا مطلب اپنے وزیراعظم کی تقریر کے دوران اپویشن کو مشتعل کرنے کی دعوت دینا ہوگا کہ وہ ہنگامی آرائی اور شور شرابہ کریں۔مطلب آبیل مجھے مار۔ادھرایوان میں کچھ ارکان اسمبلی یہ بھی چاہ رہے تھے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں سنا جائے تاکہ پتہ چلے کہ آخر ملتان کا قریشی کون سا سیاسی وار محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے فرزند پر کرنا چاہتاہے جوکہ ان کو بیٹھنے نہیں دے رہاہے۔
ادھروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تکرار کے ساتھ للکار بلاول بھٹو زرداری لابی میں سن رہا تھا، یوں وہ تھوڑی دیر بعد میں ایوان میں آگیا۔ بلاول بھٹو زرداری کے ایوان میں داخل ہونے کے انداز سے واضح تھاکہ وہ بھی آج شاہ محمود قریشی کے ساتھ ٹکراؤ کے موڈ میں ہے۔ بلاول بھٹوزرداری کی آمد کے ساتھ ہی اسپیکر اسد قیصر نے وزیراعظم شاہ محمود قریشی کوکہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب بات کریں۔ یوں ملتان کے قریشی نے اپنے روایتی انداز میں بلاول بھٹو زرداری پر گرجنا برسنا شروع کیا، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے ساتھ حکومت کے رویہ سے لے پیپلزپارٹی کے قول وفعل میں تضاد کو جواز بناکر بلاول کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بلاول بھٹو زرداری،شاہ محمود قریشی کے انداز اورلفظوں میں لپٹے الفاظ کے بارود کو بخوبی محسو س کررہاتھا کہ ملتان کا مخدوم پوری شدت کے ساتھ اس پرحملہ آور ہوچکاہے۔مطلب قریشی اپنے تئیں سارے حساب آج برابرکرنا چاہتاتھا۔شاہ محمود قریشی اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کو طنز کے تیر مارنے کے ساتھ آصف علی زرداری کو بھی نشانے پر رکھنا چاہتاتھا،مطلب بات سیاست سے بھی آگے چلی گئی تھی اور ذایتات پر آگئی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے ایک وار تو یہ بھی کیا کہ وہ آپ کو بھی جانتے ہیں اور آپ کے بابا کو بھی جانتے ہیں۔پھر وہ لمحہ آیا جس کا سب کو انتظار تھاکہ شاہ محمود قریشی کو بلاول بھٹوزرداری کس انداز میں جواب دیتاہے ؟ بلاول بھٹو کے چہرے پر ملتان کے قریشی کے طنزیہ جملوں کی وجہ سے غصہ تو عیاں تھا لیکن اس نے کمال مہارت سے اس پر قابو پالیا۔ پھر بلاول بھٹو زرداری نے شاہ محمود قریشی کو جواب دینے سے پہلے اسپیکر کو وضاحت کردی کہ فاضل ممبر ملتان نے میر ا نام لیا لیکن میں فاضل ممبر ملتان کا نام نہیں لو ں گا۔ سپیکرصاحب جتنا ہم اس فاضل ممبر ملتان کو جانتے ہیں، آپ نہیں جانتے ہیں۔میں ریکوسٹ کرتاہوں کہ وزیراعظم اورآئی ایس آئی کو کہناچاہیے کہ شاہ محمود قریشی کا فون ٹیپ کرے، جب یہ ہمار اوزیرخارجہ تھا تو دنیا میں کمپین کرتاتھا کہ یوسف رضا گیلانی کو نہیں مجھے وزیراعظم بنادو،میں آپ کے سامنے سچ بتارہاہوں کہ یہی تو وجہ تھی کہ اس کو وزرات سے فارغ کیاگیا تھا۔آپ دیکھیں یہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ کیاکرتاہے؟ یہ وزیرخارجہ کشمیر کے سودے میں ملوث ہے۔میں اس شخص کو بچپن سے جانتا ہوں،جب یہ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتاتھا اور پھر یہ ملتان کا فاضل ممبر ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگاتاتھا۔اسپیکر صاحب وزیرخارجہ وزیراعظم کے لئے خطرہ بننے والے ہیں۔
ادھر پیپلزپارٹی کے ارکان بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران شاہ محمود قریشی کو لوٹا لوٹا پکاررہے تھے۔اسی طرح تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی بھی بلاول کیخلاف نعرے لگارہے تھے لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابرتھی۔ اور بعض تحریک انصاف کے ارکان کے چہروں کی خوشی اس بات کی چغلی کھارہی تھی کہ وہ شاہ محمود قریشی کی بلاول کے ہاتھوں ہونے والی واردات پر خوش تھے۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں خطاب خاص اہمیت کا حامل تھا۔ خاص طورپر اس بات کا اعتراف کہ افغان جنگ میں ہماری شمولیت حماقت تھی اورامریکہ نے ہمارے تعاون کو سراہنے کی بجائے ہمیں برابھلاکہا اور افغانستان میں ہم پر ڈبل گیم کا الزام لگایا۔پاکستان کو افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت نہیں چاہیے۔امن میں امریکہ کے ساتھ لیکن جنگ میں امریکہ کے ساتھ نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے قومی اسمبلی میں خطاب پرآئندہ کالم میں تفصیل سے بات کروں گا۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭