شفقت حسین
کبھی کبھی مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور اس کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہرطرح کی طاقت سے لیس، ہر قسم کی سہولتوں سے بہرہ مند اور طاقت کے نشے میں سرمست بظاہر بڑے بڑے قدوقامت کے حامل لیکن درحقیقت اندر سے چھوٹے لوگ اس قدر کمزور اور اس قدر بزدل کیوں ہوتے ہیں جو محض کسی قلم کے مزدور کی جیب میں موجود چھوٹے سے قلم سے اتنا خوف اور ڈر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کے خلاف کالے قوانین کی تشکیل پر کمربستہ ہو جاتے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے ان کا گلا دبانے، انہیں سبق سکھانے یہاں تک کہ ان کا روزگار تک چھیننے پر تُل جاتے ہیں۔ اپنے لئے تو ہر طرح کی آسائش اور ہمہ قسم کی مراعات کا حصول اپناگو یا حق گردانتے ہیں اور ملکی و قومی خزانے کو کبھی کبھی یہ خوانِ یغما (لُٹ دا مال) یا شیر مادر سمجھ کر ہاتھ بھی صاف کرجاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ صورت حالات کسی ایک شعبے یا ادارے تک خاص نہیں بلکہ اِلاّ ماشاء اللہ وطن عزیز کے ہر شعبے اور ہر ادارے کے مدارالمہام اور مقتدر بلکہ ان کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکار بھی قریب قریب اسی ذہنیت کے حامل پائے جاتے ہیں۔
قارئین! یہ تمہید یا دوسرے لفظوں میں بپتا میں نے اس لئے لکھی ہے کہ ادھر ہفتے عشرے سے صوبائی دارالحکومت میں قائم پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے قوم کے نمائندوں نے اپنے خلاف چھپنے والی کسی خبر پر متعلقہ رپورٹر کے خلاف ایک ایسا کالا قانون تشکیل دینے کا فیصلہ کر ڈالاہے جس کی تحسین ہوش و خرد سے عاری کوئی جاہل شخص ہی کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ استحقاق بل 2021ء کے تحت ایسا صحافی جو کسی رکن اسمبلی کے خلاف خبر دے گا متعلقہ قانون کے تحت اس صحافی کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ عوامی نمائندوں کی شاید یہی خواہش ہے کہ صحافی قلم چھوڑ کر کلاشنکوف (خدانخواستہ) ہاتھ میں پکڑ لیں کیونکہ کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد انسان کے حوصلے تو بلند ہوتے ہی ہیں لیکن سوچنے اور غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے کسی کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ جواب قطعی طور پر نفی میں ہے کیونکہ ماضی میں بھی وقت کی وزیراعظم نے پورے ملک کے اخبارات بند کر دینے کی دھمکی دے ڈالی تھی بلکہ یہاں تک کہ جو ان کے ہمدرد ناقد تھے اور درست تناظر میں صائب مشورے دیا کرتے تھے انہیں ”دو ٹکے کے صحافی“ تک کہا گیا۔ بلکہ اگر کہا جائے تو اس میں بھی جھوٹ کی آمیزش نہیں کہ ان کے والد محترم بھی پریس سے ناخوش ہی رہتے تھے۔ ماضی کے اخبارات کے فائل اس حوالے سے گواہ ہیں۔ لیکن چونکہ اہل صحافت کو آزادی صحافت کسی آمر اور مطلق العنان یا سول اور جمہوری حکمران نے پلیٹ میں رکھ کر عزت و احترام کے ساتھ ٹھنڈے پیٹوں نہیں دی بلکہ یہ آزادی اہل صحافت نے اپنی جہد مسلسل سے اور قربانیاں پیش کر کے حاصل کی ہے،اس لئے اب اسے بزورقوت وطاقت چھیننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی سمجھا جائے گا۔
ہمیں یاد ہے کہ وقت کے ایک وزیراعظم نے جنوری 1999ء میں ملک کے ایک میڈیا ہاؤس کو پندرہ سولہ ایسے صحافیوں کے اخراج کی لسٹ فراہم کی جو وزیراعظم کو وقتاً فوقتاً جمہوری روش اپنانے کی تلقین اپنے کالموں میں کیا کرتے تھے اور اس فہرست میں کچھ ایسے صحافی بھی شامل تھے جنہیں ابھی صحافت میں طفلِ مکتب کا درجہ حاصل تھا لیکن حکومت ان سے بھی خوف زدہ تھی۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس طرح کی چیزیں تو سخت ترین سمجھی جانے والی آمریتوں میں بھی نہیں چلتیں چہ جائیکہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے دور میں اس طرح کی قانون سازی کا فیصلہ کیا جائے۔ جہاں تک اہل صحافت کا تعلق ہے ان کا تو کام ہی خبر دینا ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی خبر کسی ایک کے حق میں ہے تو کسی دوسرے کے خلاف لیکن اس کا یہ مطلب تونہیں ہو سکتا ہے کہ جس شخص کے خلاف خبر دی جائے اس پر متعلقہ صحافی کو جیل یاترا پر جانا پڑے۔ کیا بااثر مقتدر اور طاقتور لوگ آج کے جدید ماڈرن اور ترقیاتی یافتہ دور میں بھی میڈیا کی برق رفتار ترقی کے باوصف بھی دنیائے فانی سے کوچ کر جانے والوں کی تدفین کے لئے مخصوص جگہوں یعنی قبرستانوں پر قبضے نہیں کرتے؟ کیا آج بھی اس قماش کے لوگ سکولوں اور تفریحی مقامات پر قبضے کر کے اپنے مال مویشی نہیں باندھتے؟ کیا آج بھی بشارتی ٹائپ لوگ قوم کی فرزاناؤں اور دوسری بیٹیوں کے سر سے آنچل اتار کر تار تار نہیں کرتے؟ کیا آج بھی مختاراں مائی جیسی خواتین درندگی کا شکار نہیں ہوتیں؟ روزانہ اخبارات میں بااثر لوگوں کے بارے میں ایسی اطلاعات شائع نہیں ہوتیں کہ اپنی عصمت کے موتی بے آب کروانے والی معصوم اور غریب بچیاں جو عزت گنوا کر بھی اپنی کمزوری اور غربت کے باعث لبوں پر تالے ڈالنے پر مجبور ہو جاتی ہیں آخر ایسے مواقع پر کسی نہ کسی ضیا شاہد کو تو اٹھنا ہی پڑتا ہے۔ کسی نہ کسی ضیا شاہد کوتو قلم کا نشتر چلا کر کینسر زدہ حصے کو کاٹنا پڑتا ہے کہ ایسے آزار کا چارہ کسی نشتر کے استعمال کے سوا ہوتا ہی نہیں اور یہی وہ اوزار ہے جو بااثر لوگوں کے نزدیک نشتر لیکن اہل صحافت کا یہ قلم ہوتا ہے جس سے وہ ناسور کا علاج کرتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کا نعرہ عوام الّناس اور رائے عامہ میں کس قدر مقبول ہے اور ہمیں یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ ظلم ہمیشہ کمزور طبقات پرہی روا رکھا جاتا ہے۔ بااثر لوگوں کی طرف تو کوئی میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتا حتیٰ کہ قانون بھی اس کے نزدیک (تار عنکبوت) یعنی مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی گرفت میں ایسے لوگ آ بھی جائیں تو اسے توڑ کر نکل جاتے ہیں اور کمزور جس میں پھنس کر رہ جاتا ہے ہے ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم و دائم ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں اپنی افتاد طبع کے مطابق مروجہ جمہوری نظام حکومت پر یقین رکھتے ہیں لیکن نہ جانے ان کے اردگرد جمع لوگوں کے قلب و اذہان جمہوری کیوں نہیں ہو سکے، یہ نہ صرف لمحہئ فکریہ ہے بلکہ ملک کے لئے بھی نیک فال نہیں۔
خیربات ہو رہی تھی صحافیوں کے خلاف زیر بحث استحقاق بل 2021 کی توامید کی جانی چاہئے کہ جمہوری وزیراعظم اور جمہوریت پسند وزیراعلیٰ اور سپیکر پنجاب اسمبلی اس قانون کی راہ میں سدِّسکندری کھڑی کرنے میں رتی برابر تامل اور توقف اور تاخیر نہیں کریں گے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے ہاں نہ تو ہماری بالائی سیاسی اورمذہبی کلاس دل سے جمہوری کلچر اور اس کی اقدار اور روایات اور جمہوریت کے ارفع اصولوں سے سچی اوردل سے وابستگی کامظاہرہ کرسکی ہے۔نہ ہی ہم زندگی کے دیگر بہت سے شعبوں کی طرح اقتصادی‘سیاسی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکے ہیں تاکہ بین العلاقائی اور بین الطبقاتی انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے اور نہ ہی بدقسمتی سے انتخابی عمل کے دوران روپے پیسے کو اس پر اثر انداز ہونے سے روک سکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی حکومت‘عدلیہ محاذ آرائی شروع ہوجاتی ہے۔ کبھی آمریت اور جمہور یت آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور کبھی حکومت پریس تعلقات نارمل حالات میں نہیں رہتے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭