تازہ تر ین

مسئلہ افغانستان عوامی تناظر میں دیکھا جائے

وزیر احمد جوگیزئی
افغانستان کا مسئلہ 40سال سے زائد عرصے سے چلا آرہا ہے،اس مسئلہ کی مختلف اشکا ل رہی ہیں،اور اس تمام عرصے کے دوران افغانستان کبھی پاکستان کا قریبی دوست رہا ہے اور کبھی جانی دشمن۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔اسی تناظر میں 70کی دہائی میں افغانستان میں جو سیاسی انجینئرنگ کی گئی اس کا منبع بادشاہات کا خاتمہ اور جمہوریت کا کا قیام تھا،مجھے آج بھی یاد ہے جب افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا،اور جمہوریت آئی تو میں خوشی سے ایک پیر پر ناچ رہا تھا میرا خیال تھا کہ افغانستان میں اب جمہوریت آگئی ہے اور اب یہاں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو گی۔انسانی صلاحتیں پروان چڑھیں گی،میرے خوشی منانے پر میرے والد صاحب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا کہ کس بات پر خوشی منا رہے ہو،جس پر میں نے کہا کہ افغانستان میں جمہوریت آگئی ہے اور جمہوریت کے جو فوائد عام شہریوں کو ملتے ہیں وہ اب افغانستان کے عوام کو بھی ملیں گے تو انھوں نے مجھے جواب دیا کہ جمہوریت ہم انگریز کی غلامی میں رہ کر نہیں سیکھ سکے ہیں۔نہ ہی اس نظام پر عمل کر سکیں ہیں اور نہ ہی قانون کی حکمرانی لاسکے۔اور نہ ہی قانون کا احترام سیکھ سکے ہیں۔افغانستان تو ایک قبائلی معاشرہ ہے، اپنے آپ کو سنبھالتا رہے گا،اور بادشاہ اس معاشرے کو نظم و ضبط میں رکھتا تھا اور افغان آرام سے رہ رہے تھے،لیکن اب جو انقلاب آیا ہے وہ افغانستان کی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں لائے گااور پھر گزشتہ 40 برس میں ہم نے یہ تباہی دیکھی ہے۔ روس کے قبضے سے لے کر امریکی جنگ تک افغانستان عدم استحکام اور تباہی کا شکار رہا ہے۔لیکن بہر حال قصہ مختصر کر رہا ہوں کہ پاکستا ن ہی ہمیشہ اس صورتحال میں مفت میں گھسیٹا جاتا رہا ہے۔اور بین الا ا اقوامی رسہ کشی کا حصہ رہا ہے۔پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی ادارہ جاتی سطح پر نہیں بلکہ ذاتی اور شخصی سطح پر پالیساں بنائی جاتی رہی ہیں جس کے باعث پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔چاہے ماضی میں وہ ضیا الحق کی پالیسی ہو یا پھر پرویز مشرف کی پالیسی رہی ہو یہ ذاتی پالیسیاں تھیں اور انھی پالیسیوں کو پاکستا ن میں فالو کیا جاتا رہا ہے اور یہ پالیسیاں ہر گز پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں۔یہ پالیسیاں پاکستان میں طویل عرصے تک چلتی رہیں۔پیپلز پا رٹی کے دور میں بھی یہی پالیساں جاری تھیں،لیکن پیپلز پا رٹی کی قیادت کو شروع دن سے ہی سیکورٹی رسک قرار دے دیا گیا اس لیے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے دور میں کبھی افغانستان کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہ ہو سکی لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میاں نواز شریف کے دور میں وہ اس حوالے سے بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔افغانستان کے مسئلے کو عوامی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے،اور وہی اپروچ اپنائی چاہیے جو کہ افغانستان کے عوام کے مفاد میں ہو لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ عمران خان کی لیڈر شپ ہی ہے جس نے صاف اور شفاف انداز میں دوٹوک طریقے سے اسمبلی فلور پر افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا موقف رکھا ہے میں سمجھتا ہو ں کہ یہ پاکستان کے عوام کی آواز ہے۔اور نہ صرف عوام کی آواز بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے جوکہ ہم ماضی میں فراموش کر بیٹھے تھے۔اور ماضی میں اس پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔بہر حال دیر آئے درست آئے۔
طالبان ایک حقیقت ہے،طالبان کو مدرسے کے طالب علم نہیں سمجھنا چاہیے،افغان طالبان کی صفوں میں پورا افغانستان شامل ہے۔ان میں باہر ممالک کے تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔افغانستان میں ماضی میں طالبان نے جو حکومت قائم کی تھی اس کے اندرونی معاملات ایک طرف پاکستان کے لیے وہ حکومت اچھی ثابت ہوئی تھی،افغانستان میں امن قائم ہوا تھا بلوچستان میں امن قائم ہو نا شروع ہو گیا تھا،لا ء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہت بہتر ہو گئی تھی۔بہر حال ماضی میں ہماری طرف سے طالبان کو مکمل طور پر ریجکٹ کرکے اچھا عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا گیا۔نظر ایسا آرہا ہے کہ طالبان کچھ ہی مہینوں میں بہت زیادہ تجربے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر افغانستان میں حکومت سنبھال لیں گے۔اس کے بعد افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اور خطے کے اہم ممالک جن میں چین،روس،اور ترکی بھی شامل ہیں ان کو افغانستان کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔افغانستان میں امن کی کو ششوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیر اور ترقی پر بھی بہت زیادہ توجہ رکھنا ہو گی۔اور افغانستان کی ترقی میں ہی افغانستان کا امن کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ذرا سوچیے کہ جتنی دولت امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے میں لگائی ہے جس طرح بے ہنگم طریقے سے تورا بورا پر بمباری کی گئی،اور اب جس طریقے سے عجلت میں اپنے تمام اثاثہ جات کو تباہ کرکے جا رہے ہیں تاکہ طالبان ان کو استعمال نہ کرسکیں۔اور ان کو اس سے کو ئی فا ئدہ نہ ہو سکے۔یہ امریکہ کی شکست نہیں تو اور کیاہے۔
طالبان کو اللہ تعالیٰ افغانستان پر حکومت کا ایک اور موقع دے رہا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ اس موقع کا استعمال وہ کیسے کرتے ہیں۔یہاں پر میں ایک بات کا اضافہ اور کرنا چاہوں گا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں متاثر کن تقریر جو کہ بہت خوش آئند بھی تھی کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اہم ترین اجلاس جس میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت اکھٹی تھی اس میں شرکت نہ کرنا بہت ہی حیران کن اقدام تھا۔وزیر اعظم ایک ایم این اے ہیں اور ہر ایم این اے وزیر اعظم بننے کی اہلیت رکھتا ہے،وزیر اعظم کو پارلیمنٹ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے پارلیمان ہی جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے۔تب جا کر ہی آپ جو تقریر کرتے ہیں وہ عوام کے ذہنوں میں ایک اصول کے طور پر گردانی جائے گی،آپ یہ کمال بھی کر دکھائیں۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain