ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
جس طرح دھنک کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور ہر رنگ کی اپنی ایک خاص چمک اور دمک ہوتی ہے اسی طرح مختلف علاقوں کے مختلف کلچر ہوتے ہیں اور ہر کلچر وہاں کے باسیوں کی پہچان بھی ہوتا ہے اور شان بھی۔کوئی قوم بھی اپنے کلچر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ کلچر ہی قوموں کو زندہ رکھتا ہے جیسے کسی بھی تخلیق کار کو اُس کی تخلیقات زندہ رکھتی ہیں اور وہ اپنی تخلیقات سے ہی پہچانا جاتا ہے کسی شخص کی زندگی میں یہی کردار اُس کے کلچر کا ہوتا ہے چاہے وہ سندھی کلچر ہو، بلوچی ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو، جانگلی ہویا سرائیکی۔ان میں سے ہر کلچر کی اپنی ایک رمک اور دمک ہے لیکن جہاں جہاں شہر آباد ہوتے گئے وہاں وہاں کلچر اپنی اصل شکل سے محروم ہوتا گیااور مختلف کلچرز کے ملنے سے ایک عجیب طرح کے کلچر کی شکل سامنے آئی جس کو کوئی بھی فرد اپنا کلچر ماننے کو تیار تیار نظر آتاکیونکہ اُس کی سرشت میں جو کلچر سمو چکا تھا وہ اُسے کہیں نہ کہیں جھنجھوڑتا ضرور ہے اور اُسے اصل کی طرف کھینچتا ہے اور انسان کچے دھاگے کی ماند کھینچا چلا جا تا ہے وہ جہاں بھی چلا جائے اُس کے لب و لہجے سے،اُٹھنے بیٹھنے سے، کھانے پینے سے،لباس زیبِ تن کرنے سے اُس کے کلچر کی خوشبو ضرور آتی ہے
پاکستان بننے سے پہلے ہندو، مسلم اور سکھ پنجاب میں آباد تھے اور تقسیمِ ہند کے وقت سکھوں اور ہندوں کو یہاں سے ہجرت کر کے ہندستان جانا پڑا اور ہندستان سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوئے اُن میں اکثریت پنجاب کے اندر سمو گئی جس سے پنجاب میں دو مختلف کلچروں کا آغاز ہوا ایک وہ کلچر جو یہاں کے مستقل باسیوں کا کلچر تھا جس کو جانگلی کلچر کہا جاتا ہے یہ وہ لوگ تھے جن کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا تھااور ان کاذریعہ معاش بھی جانورں کی خریدو فروخت پر تھا۔یہ اگرچہ زیادہ بہادر لوگ نہیں تھے لیکن اپنے اوپر کسی کا تسلط بھی برداشت نہیں کرتے تھے چاہے وہ برطانوی سامراج ہی کیوں نہ ہو۔جانگلی برادری کے ہیروزرائے احمد خان کھرل،چن وریام، موکھااور ملنگی قابلِ ذکر ہیں انہوں نے نہ صرف برطانوی سامراج کو للکارا بلکہ اُن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید بھی ہوئے اگر چہ کچھ مغربی مورخین اور کچھ پاکستانی تاریخ دانوں نے ان کو چور اور لٹیروں کا نام دیا ہے۔اگر اپنی دھرتی کو غاصبوں سے آزاد کروانے والے چور اور لٹیرے ہوتے ہیں تو پھر یہ چور اور لٹیرے ہی تھے کیو نکہ ان کا جرم یہ تھا کہ اُنہوں نے انگریزوں کے اقتدار کو چیلنج کیا تھا۔دوسری طرف آپ ان مقامی لوگوں کا بغور جائزہ لیں تو یہ آپ کو بڑے دل اور پیار کرنے والے لوگ نظر آئیں گے اسی وجہ سے انگریز جنگِ عظیم اول اور دوم میں جانگلی لوگوں کو نہیں بھیجتے تھے کیو نکہ ایک تو ان کے لئے دریا پار جانا بڑا مشکل ہوتا تھا اور دوسرا اپنی دھرتی سے دوری کی وجہ سے وہ جنگوں میں لڑنے کی بجائے اپنی دھرتی ماں کو یاد کر کہ روتے تھے یہ روایت ابھی تک قائم ہے کہ جب بھی کوئی شخص اب بھی فوج میں بھر تی ہوتا ہے تو اُس کے عزیز و اقارب نم آنکھوں کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت کرتے ہیں بلکہ پیار سے لبریز چٹھیاں بھی ارسال کی جاتی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ دل کے کتنے نرم اور ایک دوسرے سے پیا ر کرنے والے اور خوشیاں،غم بانٹنے والے ہوتے ہیں۔
ان کی اقدار اور رسم و رواج بڑے مضبو ط ہوتے ہیں بڑی عمر کی عورت کو ملتے ہی اس کے آگے سر جھکا دینا اور بوڑھی عورت کا پیا ر سے سر پے ہاتھ رکھنا ایک ایسی قدر ہے جو آج کے دور میں کسی اور کلچر میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔چار پائی پر بیٹھے چاچے، مامے اور تائے کے سامنے بیٹھنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا اگر زیادہ اصرار بھی ہوتا تو چار پائی کے پا ئنتی کی طرف بیٹھنے کو ترجیح دی جاتی۔اگر کسی کا کوئی رشتہ دار فوت ہو جاتا تو مہینہ بھر لوگ اُس کے نہ صرف گھر رہتے بلکہ دکھ درد میں یکساں شریک ہوتے ایسے محسوس ہوتا کہ شاید پورے گاؤں کا عزیز فوت ہوا ہے ہر شخص جنازے میں شریک ہوتا یتیموں اور بیواؤں کے سر پر لوگ شفقت کا ہاتھ رکھتے۔ فوت ہونے والے کے گھر پورا مہینہ عزیز و اقارب آنے والے مہمانوں کو کھانا دیتے جس سے فوت ہونے والوں پر کوئی مالی بوجھ بھی نہ پڑتا۔ان لوگوں کے اندر فوت ہونے والے کا ”ختم“ دلوانے کا تصور بھی بہت مضبوط ہے تیسرے دن قُل شریف ہوتے ہیں۔پھر دسویں دن ختم ہوتاہے اور اُس کے بعد چالیسویں کا ختم دلوایا جاتا۔ اسی طرح اگر کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو سارا گاؤں ایسے تیاریوں میں لگا ہوتا کہ جیسے اُن کی اپنی بیٹی کی شادی ہے کوئی کھا نا پکوانے میں مصروف ہوتا تو کوئی جہیز بنوانے میں۔گاؤں میں ایک گھر کا داماد پورے گاؤں کا داماد تصور ہوتاشادی کے بعد دعوتوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا تحفہ میں گائے یا بھینس کا دینا عام رواج تھا جس سے پیار محبت بڑھتا اور لوگ ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کرتے اگر کسی کی بیٹی رخصت ہو رہی ہوتی تو عزیز و اقارب ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کے دل کا بوجھ ہلکا کرتے اور افسردگی کا عالم ہوتا ہے۔ لیکن شادیوں میں وٹے سٹے کی رسم بہت مضبوط ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کو کچھ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جیسے اگر میاں بیوی میں لڑائی ہو جائے اور بیوی ناراض ہو کر میکے چلی جائے تو میاں کی بہن کو بھی اپنے بھائی کے گھر جانا پڑتا ہے اِس طرح گھروں میں مسائل پیدا ہوتے ہیں
جانگلی لوگوں کے کلچر میں خدا ترسی کا عنصر بہت اہم ہے گھر کہ دروازے سے فقیر کو خالی ہاتھ نہیں موڑتے آٹے کا لپو ضرور دیا جاتا ہے کیو نکہ یہ لوگ فقیر کی بد دعا سے بھی بہت ڈرتے ہیں کیو نکہ ان کے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ فقیر کی بد دعا عرش کو ہلا دیتی ہے دوسرا یہ کہ یہ کسی کو تکلیف میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔اس خوبی کا اعتراف تو سر جیمز برڈ وڈ لائل نے بھی کیا ہے جس کا کہنا تھا کہ جب وہ لائل پورکو آباد کر رہا تھا اور اسے سخت گرمی کا سامنا تھا تو ایک جانگلی نے اسے دھوپ سے بچنے کے لئے چھپر کا تصور دیا اگر چہ لائل جانگلی زبان سے نا واقف تھا لیکن جانگلی کے اشاروں سے لائل نے اپنے لئے ایک ایسا سایہ تعمیر کیا جس سے وہ اپنے آپ کو گرمی سے بچا سکا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ جانگلی کی نرم دلی تھی جس نے لائل کی تکلیف کو محسوس کیا اور اسے اُس کا حل بتایا۔اس کے ساتھ ساتھ جانگلی لوگوں پر مذہب کی چھاپ بھی خاصی گہری ہے لیکن وہ مولوی کے مذہب کو ماننے کی بجائے صوفی کی تعلیمات کا پیرو کار نظر آتا ہے درباروں پر جانا اور چادریں چڑھانا اُن کے کلچر کا حصہ ہے۔ پیری مریدی کا تصور بہت زیادہ مضبوط ہے اپنی تکالیف کا مداوا پیروں کی دعاؤں میں تلاش کرتے ہیں اگر تصوف کی اصل شکل دیکھنی ہو تو جانگلی لوگوں میں دیکھی جا سکتی ہے پیر کے سامنے اُنچی آواز میں بولنے کو گنا ہ سمجھنا، پیر کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا، پیر کے سامنے سر جھکا کے چلنا اور پیٹھ نہ کرناجا نگلی لوگوں کی خصوصیات ہیں۔بیماری کی صورت میں تعویز گنڈوں کا استعمال اور دعاؤں کا سہارا لینا اُن کا شیوا بن چکا ہے۔صوفیا ء کے مزاروں پر عرس اور میلے کی تقریبات میں یہ لوگ خاص طورپر شرکت کرتے ہیں ریچھ۔کتے کی لڑائی،گھوڑا ناچ،تھیٹراور جلیبی کھانے میں اُن کی خاص دلچسپی ہوتی ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے
شعبہ ہسٹری کے سابق چیئرمین ہیں)
٭٭٭