عبدالباسط خان
دلیپ کمار عرف یوسف خان اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر 98سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ آئیے ان کی زندگی اور فن کا تجزیہ کرتے ہیں۔
دلیپ کمار ایک حادثاتی اداکارتھے کیونکہ وہ خوبصورت ہونے کے با وجود فلم میں اداکاری کرنا تو دور کی بات وہ فلم دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔پشاور میں پیدا ہونے والے مسلم گھرانے کے فرد ہونے کے ناطے وہ ایک نان لبرل شخص تھے اور اپنے والد کے ہمراہ بمبئی فلم سنٹر میں رہنے کے باوجود فلمی دنیا میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ ان کے والد غلام سرور صاحب پھلوں کے بیوپار ی تھے اور پشاور میں ان کا میل جول اور اٹھنا بیٹھنا راج کپور کے خاندان کے ساتھ تھامگر ان کے والد راج کپور کے داد ا کو فلمی دنیا سے وابستگی کی بنا پر طعنے دیا کرتے تھے۔ راج کپور دلیپ کمار کو اکثر کہا کرتے تھے کہ تم ایک اداکار بنو گے مگر دلیپ کمار اس بات کو نظر انداز کر رہے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تمہارا خاندان اس شعبہ سے وابستہ ہے لہٰذا میں کیوں ادکار بنوں گا۔
جب یوسف خان عرف دلیپ کمار کا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو ان کے والد صاحب نے پوناکی ایک ملٹری کنٹین میں ان کو دوکان کھلوادی جہاں دلیپ صاحب پھل بیچا کرتے تھے۔ قسمت کی دیوی ان پر اس وقت مہربان ہوئی جب بمبئی ٹاکیز کی مالکہ اور اس وقت کی ہیروئن دیو کارانی بھی پھل خریدنے کے لیے وہاں آجاتی ہے اور دلیپ کمار کو دیکھتے ہی اس پر لٹو ہو جاتی ہے۔ یہ 1943ء کا زمانہ تھا اور دلیپ کمار کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ دیوکارانی انہیں فلم میں کاسٹ کرنے کا سوچ رہی ہیں وہ اسے اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر اپنے دفتر آنے کا کہتی ہے دلیپ کمار یہ سمجھنے لگے کہ شاید یہ خوبصورت دیوی اسے اپنے دفتر میں کسی خاص مقصد کے لئے مدعو کر رہی ہے۔ لہٰذا بہانہ کرتے ہیں کہ میں ایک دن کی دیہاڑی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ مگر دیوکارانی سوال کرتی ہے کہ تم دیہاڑی میں کتنا کما لیتے ہو دلیپ کمار کہتے ہے کہ کم از کم پانچ روپے کیونکہ اس زمانے میں ڈالر اور روپے کا ریٹ ایک ہی ہوا کرتا تھا۔ دیوکارانی اس کی ہتھیلی پر دس روپے کا سکہ رکھ دیتی ہے۔ لہٰذا اب دلیپ کمار کے لیے انکار کرنا ممکن نہیں تھا اگلے ہی دن دلیپ کمار کے آڈیشن لئے جاتے ہیں اور فوٹوسیشن کے لیے انہیں فلم میں کا م کرنے کی آفر کرتی ہیں۔ دلیپ کمار کہتے ہے کہ وہ ماہانہ دوسوروپے کما لیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا گزر اوقات کیسے کرینگے۔ جواب میں دیوکارانی دلیپ کوساڑھے چار سو روپے ماہانہ کی پیشکش کرتی ہیں اب تو دلیپ کمار کو سمجھ آگئی کہ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی ہے لہٰذااس طرح حادثاتی طور پر دلیپ کمار فلم ”جوار بھاٹا“ میں پہلی دفعہ بطور ہیرو جلوہ گر ہوگئے مگر وہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی۔ اس فلم میں ان کا نام دلیپ کمار رکھا گیا۔ 1947ء میں ان کی پہلی سپرہٹ فلم”جگنو“ عوام میں بے حد مقبول ہوئی اور اس فلم میں اس کا رول عاشق نامراد،غمزدہ ہیرو کا تھا اور اس طرح دیگر فلموں میں بھی غمزدہ ہیرو کے طور پر کامیاب نظر آئے اور اس طرح ان کو ”ٹریجڈی کنگ“ کا خطاب مل گیا۔ اور وہ اپنے اس رول میں اکثر ڈوب جاتے تھے اور ان کی حقیقی زندگی ان کے رول کو بہت متاثر ہوگئی اور لوگ ان کو مشورہ دینے لگے کہ اگر وہ اسی طرح غمزدہ عاشق نامراد کے کردار کرتے رہے تو شاید ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے۔لہٰذا ان کو اس ڈگر سے ہٹنا چاہا مگر انہوں نے ”لیڈر کوہ نور“ اور”آزاد“ کے نام سے فلمیں سائن کیں جس میں ان کا کامیڈی رول تھا۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ دلیپ کمار ایک محنتی اداکار تھے اور پرفیکشن کے لیے مکمل طور پر کردار میں ڈوب جاتے تھے۔
ان کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی تھا کہ وہ پیسے کے لیے فلمیں سائن نہیں کرتے تھے اس بات میں کوئی دوآ راء نہیں کہ انہوں نے اپنی پہلی فلم ”جوار بھاٹا“ پیسے کے لیے سائن نہیں کی تھی مگر وہ ایک منجھے ہوئے اداکار اور اپنے فن کا لوہا منوا چکے تو وہ فلموں کے انتخاب میں بہت احتیاط کرتے تھے لہٰذا انہوں نے ساٹھ سال کے عرصے میں صرف 61فلمیں سائن کیں جس میں وہ صرف 48فلموں میں بطور ہیرو آئے۔ دلیپ کمار صاحب کاایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ 48فلموں وہ 19بار ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے جس میں وہ آٹھ بار بہترین اداکار قرار پائے۔اس ریکارڈ کو کوئی اداکار نہیں توڑ سکاسوائے شاہ رخ خان کے۔ برسوں بعد اس ریکارڈ کو برابر کیا۔ اسی طرح بالی وڈ کے مشہور اداکار راجکپور نے اپنی ”سنگم“کے لیے کاسٹ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور تقریباً پانچ سال تک انتظا ر کیا مگر انہوں نے کہا کہ یا تو وہ ڈائریکٹر بدل لیں یا پھر ایکٹر بدل لیں۔ یاد رہے فلم ”سنگم“کو راج کپور نے ہی ڈائریکٹ کیا تھا۔ اور وہ رول جو دلیپ کمار کو آفر کیا گیا تھا وہ رول راجندر کمار نے کیا اور اس فلم نے بھی بہت بڑا بزنس کیا۔ دلیپ کمار کی فلمی زندگی کایاد گار رول فلم ”مغل اعظم“ میں شہزاد ہ سلیم کا تھا جو 1960ء میں بنی اور اس فلم نے ایک ریکارڈ بزنس کیا اور اس ریکارڈ کو1975میں فلم”شعلے“ نے توڑا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کی بیگم سارہ اور دلیپ کمار ایک جان دو قالب تھے دلیپ کمارکو لاحق امراض کے دوران جتنی خدمت وہ کر رہی تھیں شاید کوئی دنیا کی اور خاتون نہ کرسکتی۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ یوسف خان(دلیپ کمار)کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبرواستقامت کے ساتھ یہ صدمہ سہنے کی ہمت عطافرمائے۔ دلیپ صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے چاہنے والے یقینا غمزدہ ہیں اور ان میں ہم جیسے ان کے پرستار بھی شامل ہیں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭