لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفےٰ
فرشتوں اور شیطانوں کی بحث میں ہم نے اپنی تاریخ اور تاریخی پس منظر کو اس قدر مسخ کر دیا ہے کہ اب شاید ہی آپ کو کچھ ایسے صاحب بصیرت اور صاحب نظر ملیں گے جو میرے جیسے بھٹکے ہوؤں کو آج تک کے سفر کی صحیح داستان سنائیں اور اس سفر میں پیش آنے والے حالات کا صحیح تجزیہ کر سکیں گے۔ ہمارا حال ماضی سے اور مستقبل آج کے حال سے اور کل کے ماضی سے جڑا ہے ہوااور ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والے کل کو سب کچھ صحیح بتایا جائے۔ پچھلے کالم میں بھی میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ انفرادی ہو یا بحیثیت قوم اپنی غلطیوں کا اعتراف اس وقت ممکن ہے کہ جب ہم بحیثیت انسان اور بحیثیت پاکستانی قوم احساس کمتری سے نکل کر مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہوں گے۔
یہ تو بہرحال مقطع میں سخن گسترانہ بات آ گئی تھی اصل میں تو ہم کشمیر کے مقدمے پر بات کر رہے ہیں۔ آج جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی ہیں تو انتہائی وجیہہ پُرامید اور بہت بڑی سوچ رکھنے والے نوجوان برہان وانی کا یوم شہادت بھی منایا جا رہا ہے۔ اس نوجوان نے اپنے خون سے وادی جنت نظیر میں بسنے والے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے جس کے نتیجے میں نولاکھ سے زیادہ بھارتی افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے 80 لاکھ کشمیریوں کی قید میں ہیں۔ بظاہر تو یہ بات شاید اتنی ٹھیک نہ لگے تو پھر میں اس سے آگے بھی ایک اور بات کرنے لگا ہوں۔ آج پورا برصغیر بلکہ کسی حد تک پوری دنیا 80 لاکھ کشمیریوں کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارت انتہائی خوش قسمت ہو گا کہ کشمیری انہیں آزاد کر دیں جس سے اقوام عالم کے امن کے مواقع بھی بڑھ جائیں گے۔ بُرہان وانی نے تو صدیوں سے قائم کشمیری روائت کو دہرایا ہے اس سلسلہ میں 13 جولائی 1931 کا دن جو عام طور پر شہدائے کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے وہ بھی ایک ایسا سنگ میل ہے جس نے ثابت کر دیا تھا کہ کشمیر، کشمیریت اور اسلام ایک ایسی حقیقت ہیں جسے جھٹلانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ یہ حقیقت کہ کشمیر تھا۔ بھارت اور پاکستان نہیں تھے۔ یہ کشمیر تھا آج جو ان علاقوں پر حکومت کر رہا تھا جس میں کافی سارے آج کل پاکستان اور بھارت کے نقشے میں دکھائی دیتے ہیں۔ آپ وہ منظر اپنے ذہن میں لایئے جب عبدالقدیر نامی ایک شخص کو صرف اس بنا پر پھانسی دی جا رہی تھی کہ اس نے ایک ایسے ملعون کو جہنم واصل کر دیا تھا جس نے قرآن کریم کی (نعوذ باللہ) بے حُرمتی کی تھی۔ حیران کن طور پر عبدالقدیر کو دی جانے والی پھانسی کا منظر دیکھنے کے لئے سری نگر میں جمع ہو گئے تھے۔ جمعتہ المبارک کا دن تھا اور نماز جمعہ کا وقت ہوا تو ایک نوجوان اذان کے لئے اٹھا ابھی اس نے اذان شروع ہی کی تھی کہ ڈوگرا راج کی پہلی گولی چلی اور وہ نوجوان شہید کر دیا گیا۔ جمعے کی اس اذان کو وہاں چھوڑا نہیں گیا۔ 32 اور جوان 13 جولائی 1931ء کو سری نگر جیل کے باہر جمعہ کی اذان مکمل کرنے کی سعی میں جام شہادت نوش کر گئے۔ اذان بھی مکمل ہو گئی اور ان 33 شہدا کے خون نے وادی کشمیر کو بلکہ پورے برصغیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ شیخ عبداللہ اور غلام عباس جیسے کشمیری لیڈر اس جدوجہد کے درمیان ابھرے جس کے بعد کشمیر کو ایک خاص حیثیت دے دی گئی جسے بعد میں ہندوستان کے آئین کی ایک شق 370 جو بعد میں بھارتی آئین کا حصہ بن گئی اس کو ختم کرنے کے لئے پانچ اگست 2019ء کو مودی سرکار نے بزور شمشیر ختم کر دیا۔ چھ نومبر 1947ء کو جموں میں پیش آنے والا واقعہ تو آپ کو یاد ہو گا جس میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر کے جموں میں ہندو اکثریت کو ایک نئی حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اب یہی کچھ بقیہ کشمیر میں دہرایا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ ذہن میں رکھیے اور پھر چند ایسے آپشنز پر غور کیجئے جو عام طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں کہ چین نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے جیسے ہم نے 70 سال انتظار کیا اپنے آپ کو بحیثیت قوم معاشی طور پر اور دفاعی طور پر ایک مضبوط ملک بنا لیا جس کے بعد برطانیہ کو باامر مجبوری اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنی پڑی۔ ہانگ کانگ اور مکاؤ چین کو واپس کرنا پڑے۔ بالکل اسی طرح پاکستان بھی اپنے آپ کو معاشی اور دفاعی طور پر اتنا مضبوط کر لے جو بھارت کو مجبور کر دے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت واپس کر دے۔ اس بیانئے کی بہت بڑی کمزوریوں کی طرف نہ تو نظر ڈالی جاتی ہے اور نہ ہی ہم بحیثیت قوم اس پر کبھی غور کرتے ہیں۔ باقی سب تو ایک طرف چھوڑ دیجئے۔ کیا کوئی مجھے یہ سمجھائے گا کہ اولاً اس سارے منصوبے کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کتنا عرصہ درکار ہو گا اور کیا اس عرصے میں پاکستان ایک انتہائی مضبوط معاشی اور دفاعی طاقت بن جائے گا؟یا اس کو بھی اہم بننے دیا جائے گا یہ سوالیہ نشان ہے۔ اور اس عرصے میں بھارت اپنی ہر طرح کی ترقی روک کر ترقی ئمعکوس کی طرف چل پڑے گا اور ایک مضبوط پاکستان کے مقابلے میں اپنے آپ کو اتنا کمزور کر لے گا جس کے بعد اسے کشمیریوں کی بات ماننی پڑے گی؟ دوسری بات جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ چین تو مکاؤ اور ہانگ کانگ کے بغیر ہر طرح سے ایک ملک تھا جبکہ دوسری جانب برطانوی سامراج نہ صرف کمزور پڑتا جا رہا تھا بلکہ ہانگ کانگ اور مکاؤ کے دفاع میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا اس لئے چین 70 سال اور بھی انتظار کر سکتا تھا جبکہ کشمیر کے بغیر پاکستان مکمل ہی نہیں ہے۔ یہ جغرافیائی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی روح کو لگنے والا ایک ایسا زخم ہے جس پر اس وقت مرہم رکھی جائے گی جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا ورنہ یہ ناسور کی شکل اختیار کر کے خدانخواستہ روح پاکستان ہی کو ختم کر سکتا ہے۔
آج میں یہ کالم ختم کرنے سے پہلے اپنے قارئین سے مطمئن ہوں کہ وہ یہ کھوج لگائیں کہ 157 سال تک کشمیر پر حکومت کرنے والے تاتاری کب اور کیسے کشمیر پہنچے۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ اس مہم کا جغرافیہ بھی غور طلب ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ اس راستے کو مستقبل میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ایک اور چیز بھی غور طلب ہے کہ چین میں بسنے والے یغور مسلمانوں کو چین کے خلاف اکسانے والی طاقتیں کون سی ہیں اور ان میں سے تخریب کار یغوریوں کوکہاں تربیت دی جاتی ہے اور کون سے راستے سے واپس مغربی چین میں داخل کیا جاتا ہے تا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔
(کالم نگار دفاعی وسیاسی تجزیہ نگار
اورسابق کورکمانڈر منگلا ہیں)
٭……٭……٭