علی سخن ور
جرائم پیشہ افراد کے بڑے بڑے گینگ بننے اور سڑکوں پر ناجائز تجاوزات قائم ہونے کا میکینزم بالکل ایک جیسا ہوتا ہے۔چھوٹے چھوٹے جرائم سے ابتدا کرنے والے مجرم کو اگر آغاز ہی میں سخت سزا دے دی جائے تو شروع میں ہی اس کے جرائم کا سلسلہ رک جائے۔دکان کے باہر بوتلوں کا کریٹ یا آٹے کی بوری رکھنے والے دکاندار کو اگر اہل علاقہ اور متعلقہ ادارے پہلے دن ہی ٹوک دیں یا پھر سڑک پر اپنے گھر کے باہر پہاڑ نما ریمپ بنانے والوں کو تعمیر کی ابتدا ہی میں اہل محلہ کی مزاحمت کا سامنا ہوجائے تو بات آگے کبھی بھی نہیں بڑھے گی۔آپ سب نے ٹی وی نیوز رپورٹس میں کسی محکمانہ حکم یا پھر عدالتی ہدایت کی روشنی میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کو بلڈوزرز کے ذریعے مسمار ہوتے دیکھا ہوگا۔ ایسی عمارتیں یقینا ایک روز میں تعمیر نہیں ہوجاتیں، سال ہا سال لگ جاتے ہیں۔ ناجائز عمارت کو بالکل پہلے دن تعمیر سے روکا کیوں نہیں جاتا۔ خلاف قانون تعمیر ہونے والی عمارتوں کو روکنے کی ذمے داری جن اداروں اور سرکاری اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے، ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی۔”گُربہ کشتن روزِ اول“ کے مصداق اگر ابتدا ہی میں سخت اقدامات کر دیے جائیں تو خرابی بڑھنے کے امکانات بالکل ہی معدوم ہوجائیں گے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال تیزاب گردی جیسے قبیح جرائم کی بھی ہے۔ چہرے پر پھینکے جانے والے تیزاب کے چند چھینٹے کسی بھی مضروب کی زندگی کے سارے منظر نامے کو اتنا بھیانک بنا دیتے ہیں کہ لفظ اس کی شدت کو بیان ہی نہیں کر سکتے۔اگر قانون یہ بنا دیا جائے کہ تیزاب پھینکنے وا لے کے جسم کے اسی حصے پر تیزاب پھینکا جائے گا جس حصے کو اس نے نشانہ بنایا تھا تو یقین کر لیں کہ کسی کو بھی ایسی مکروہ حرکت کرنے کی دوبارہ ہمت نہیں ہوگی۔اغوا برائے تاوان، ملازمین پر تشدد،کرپش،سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کی مہم اور اسی طرح کے بہت سے جرائم محض اس لیے رواج بنتے جارہے ہیں کہ ان کو روکنے کے لیے قانون میں توموجودہے مگر سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا۔سچی بات یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کی تربیت کرنا پڑے گی کہ بنیادی انسانی حقوق کسی کے بھی پامال ہورہے ہوں، ہمیں تحفظ میں آگے بڑھنا چاہیے۔اچھائی ہو یا برائی، پہلا قدم ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔یقین کیجیے ہم پاکستانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ باصلاحیت قوم ہیں۔ہمارے کھلاڑی، ہمارے فنکار، ہمارے قلمکار، کاشتکار، سائنسدان اور سیاستدان، سب کے سب بہترین ہیں، اگر کمی ہے تو صرف اور صرف سسٹم کی ہے۔ سسٹم ٹھیک کردیں تو ہم دنیا کے حکمران بن سکتے ہیں۔سزا اور جزا کا نظام بھی اسی سسٹم کی ایک کڑی ہے۔بد نصیبی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سسٹم کوٹھیک کرنے کی بجائے صرف سسٹم پر الزام تراشی ہی اپنی ذمے داری سمجھتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ابھی کچھ عرصہ قبل قوم کو ’گرین اور کلین پاکستان‘ کا وژن دیا، اس وژن کی روشنی میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی ہدایت پر صوبے بھر میں لاکھوں کی تعداد میں پودے اور درخت لگانے کے منصوبے پر تیزی سے عمل ہورہا ہے۔ ہر شہر ہر ضلع کی انتظامیہ سڑکوں بازاروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک نہ صرف قدآور درخت اور پودے فراہم کر رہی ہے بلکہ انہیں لگانے کے لیے ہر ممکنہ آسانی اور معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے۔ مجھے اپنے شہر ملتان کی حد تک تو یہ علم ہے کہ یہاں اب تک ہزاروں کی تعداد میں درخت اور پودے لگائے جاچکے ہیں۔امید ہے ان لگائے جانے والے ہزاروں درختوں میں سے چند ہزار یا پھر چند سو بھی جڑیں پکڑ گئے تو زمین کا چہرہ ہی بدل جائے گا۔تاہم یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ لوگوں کو نئے درخت لگانے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ، ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے والوں کوروکنے کے لیے اقدامات بھی کیے جانے چاہیے ہیں۔نئی شجر کاری ہوتی رہے اور پرانے درخت کاٹ کاٹ کر امرا کے لیے رہائشی کالونیاں بنائی جاتی رہیں تو سسٹم منہ کے بل زمین پر آگرے گا۔جاوید اختر محمودآج سے بیس بائیس سال پہلے ملتان کے گورنمنٹ علمدار حسین اسلامیہ کالج میں بیالوجی کے لیکچرار تھے، پھر انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا، اس وقت کمشنر ملتان ڈویژن ہیں۔آج کل پی ایچ اے ملتان کے چیرمین اعجاز جنجوعہ کے ساتھ مل کر گرین اور کلین پاکستان مہم کے تحت اس سرزمین اولیاء کو درختوں سے اس طرح ڈھانپ دینا چاہتے ہیں کہ چھاؤں سے شہر کا درجہ حرارت کم از کم دو ڈگری نیچے آجائے۔درختوں کے حوالے سے ان کی ریسرچ کا چرچا بین الاقوامی میڈیا میں بھی سننے کو ملتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ درخت ہماری طرح جان دار ہوتے ہیں، انہیں چوٹ بھی لگتی ہے، درد بھی ہوتا ہے اور قدرتی نظام کے تحت ان کے زخم بھی بھرتے ہیں، درخت کاٹنا، جاندار کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔
کچھ ایسی ہی بات میری والدہ مرحومہ بھی کہا کرتی تھیں کی درختوں کے پتے ہمارے بالوں کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی شاخیں ہمارے ہاتھ پیروں جیسی ہوتی ہیں۔کسی کے بال کھینچو گے یا پھر ہاتھ پیر مروڑو گے تو بہت تکلیف ہوگی،درختوں کا خیال رکھا کرو کیونکہ درخت ہمارا خیال رکھتے ہیں۔افسوس یہ کہ ہمارے بہت اچھے معاشرے میں یہ سب اچھی اچھی باتیں بعض دفعہ بہت بے معنی سی محسوس ہوتی ہیں، ہمارے ہاں درخت لگانے والوں سے درخت کاٹنے والے کہیں زیادہ ہیں۔آم اور مالٹے کے ہرے بھرے، پھلوں سے لدے پھندے درخت، رہائشی کالونیاں بنانے کے لیے جس تیزی سے کاٹے جارہے ہیں اس کی مثال دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں ملتی۔امریکا برطانیہ جیسے مہذب ممالک میں تو اتنی سخت قانون سازی کی گئی ہے کہ جو زرعی زمین ہے اس پر رہائشی عمارت تعمیر ہی نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی ان ممالک میں انتہائی مہنگے کاروباری شہروں کے عین درمیان ایسے رقبے موجود ہیں جن پر کسان ہل چلاتے، فصلیں بوتے دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی اگر ایسی قانون سازی کر لی جائے تو پھرپاکستان میں بھی ہر طرف ہریالی ہوگی۔ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف درخت لگانے کی طرف راغب کرنا ہوگا بلکہ انہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ درخت کاٹنے والے انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔اگر درخت کاٹنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں متعارف کرا دی جائیں تو یقین کیجیے کہ لوگ خواب میں بھی کبھی درخت نہیں کاٹیں گے۔مسئلہ سارے کا سارا سسٹم کی خرابی کا ہے۔ہمیں سسٹم کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے اہم بات سزا کے نظام کو موثربنانا ہے۔سزا کا خوف نہیں ہوگا تو مجرمان کے گینگ بھی بنیں گے، سمگلنگ بھی ہوگی، تیزاب گردی کے واقعات بھی ہوں گے اور درختوں کی کٹائی بھی جاری رہے گی۔
پچھتائیں گے اک روز کڑی دھوپ پڑی تو
جو لوگ محبت کے شجر کاٹ رہے ہیں
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭