محمدنعیم قریشی
امریکی فوج کے جنرل آسٹن اسکاٹ ملر اس وقت افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کے عمل کی نگرانی کررہے ہیں، امریکا نے طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے مطابق مئی 2021تک افغانستان سے انخلا کرناتھا،واشنگٹن میں میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ترجمان پینٹا گون جان کربی نے کہاہے کہ صدر جوبائیڈن کی ہدایت کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کا محفوظ انخلا جاری ہے، مگر اس سارے عمل کے نگران امریکی فوج کے جنرل آسٹن اسکاٹ ملر نے اپنے اختیارات سنبھالتے ہی طالبان کو دھمکیاں دینا شروع کیں اور اپنے ایک بیان کہاکہ اگر طالبان کی جانب سے پرتشدد واقعات نہ رکے اور ان کی جانب سے نئے نئے علاقوں پر قبضے کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو انہیں پھر امریکا کی جانب سے فضائی حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
دوسری جانب طالبان کی جانب سے بھی امریکا کو خبردار کیا جارہا ہے کہ اگر افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی افواج کا دوحہ معاہدے کے مطابق انخلا نہیں ہوتا تو پھر ان کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوجائے گا، یہ بات واضح ہے کہ طالبان نے امریکا کے ساتھ گزشتہ برس فروری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق امریکی اور نیٹو افواج پر حملے نہیں کیے تھے مگر معاہدہ کا پیریڈ ختم ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں گروپوں میں سخت جملوں کا تبادلہ زور پکڑتا رہا جو اب بارودی ماحول میں تبدیل ہوچکاہے،اس وقت دونوں طرف سے سخت جملوں کے تبادلوں نے ماحول کو خاصا گرم کردیاہے، جس سے بگرام ائیر بیس کو خالی کرنے کے ساتھ امریکی فوج کی باعزت رخصتی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے ایسا لگتاہے کہ امریکا یہاں سے اس طرح جانا چاہتاہے کہ ان کے ساتھ اس موقع پر کوئی بڑا سانحہ نہ ہوجائے کیونکہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ امریکا طالبان کی طاقت کے آگے اپنے ٹینکوں اور فوج کو سرنڈر کرچکاہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود امریکا اپنی پوزیشن اور ساکھ کی عزت بھی چاہتاہے، جبکہ طالبان کی افغانستان میں روز بروز بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے امریکا کے آسرے پر بنی اشرف غنی کی حکومت کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑے ہوئے ہیں،کیونکہ ایک خبر یہ بھی ملی ہے کہ طالبان نے حال ہی میں قندوزشہر کے آس پاس کے متعدد اضلاع کے ساتھ شمال میں موجود تاجکستان کی ایک بڑی گزر گاہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے،جبکہ عالمی میڈیا کے مطابق طالبان بہت تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور انہوں نے شاید ہی کوئی ایسا علاقہ چھوڑا ہو جس کو اپنے قبضے میں نہ لے لیاہو اور اب طالبان قابل پر قبضے کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں،جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق بلخ میں ایران روس بھارت تاجکستان اور ازبکستان نے مزار شریف میں اپنے قونصلیٹ کے دفاتر کو تالا ڈال دیاہے، اس بڑھتی ہوئی کشیدہ صورتحال میں جہاں پاکستان کی حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے وہاں پڑوسی ملک بھارت بھی دونوں جانب سے کھیل رہاہے، بھارت نے خطے کے امن کو اپنی منشا کے مطابق خراب کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے جس کا نیٹ ورک اب ختم ہوتا دکھائی دے رہاہے،اس ساری صورتحال کے ساتھ بھارت نے پاکستان اور چین کی سرحد پر اپنی ایک لاکھ فوج کا مزید اضافہ کردیاہے جبکہ پاکستان کی جانب سے 40 ہزار اور چینی سرحدی علاقوں پر 60ہزار افواج کا اضافہ ہواہے یہ تمام حالات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ خطہ اس وقت ایک انہونی جنگ کا شکار ہونے جارہا ہے، اس وقت افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش بن چکی ہے، اور پاکستانی میڈیا میں افغانستان کامسئلہ اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث ہونے والا مسئلہ بن چکاہے، جس کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم کا انگریزی میڈیا کو دیا جانے والا مکالمہ ”Absolutely Not“نے خوب شہرت کمائی ہے۔ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کا یہ فیصلہ نہایت جرات مندانہ اور قوم کی آواز ہے۔
پاکستان کی تاریخ یہ بھی رہی ہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف نے امریکا کہ تمام ترشرائط پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے انہیں فوجی اڈے دیئے۔چاہے گزشتہ وقت نوازشریف کا تھا یا آصف زرداری یا پھر فوجی آمر پرویز مشرف کا یہ اس قوم کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان ادوار میں پاکستان کی سرزمین اغیار کے لیے استعمال ہوتی رہی اور یہاں غیر ملکی قوتوں نے پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیاجس کے نتیجے میں ہم نے 70ہزار سے زائد بے گناہ فوجیوں اور شہریوں کی قربانی دی۔موجودہ حکومت کویہ ایک کریڈٹ ضرور جاتاہے کہ اس حکومت کے ہاتھوں گزشتہ تین سالوں میں کچھ ایسے کام ہوئے ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی ضرورت بن چکاہے۔
دنیا اب پاکستان کی مضبوط آواز کو سننے لگاہے مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے میں جوکمپین وفاقی حکومت کی جانب سے چلائی گئی ہے اس نے پاکستان کو تمام تر معاملات میں عزت بخشی ہے، پاکستان افغانستان میں فوجی کارروائی کاکبھی بھی حامی نہیں رہاہے،اس خانہ جنگی کی روک تھام کے لیے پاکستان پوری دنیا کو اپنا موقف پیش کرتارہاہے اور یہ کہتارہاہے کہ افغا نستان میں پائیدار امن پوری دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے،افغان ایشو پر باس وقت پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بیان بازی اور فیصلے کررہاہے گزشتہ دنوں عسکری قیادت،وفاقی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک اجلاس بھی ہوا جس میں اپوزیشن سمیت تمام لوگ مطمئن رہے اور یہ فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان اب اپنی سرزمین کسی بھی صورت استعمال نہیں ہونے دے گا، اس وقت اصل مسئلہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء اور اس کے بعد ہونے والے واقعات سے جڑاہے اور کوئی نہیں جانتاکہ امریکا جب افغانستان سے کوچ کرجائے گا تو اس وقت افغانستان کے حالات کیاہوں گے،کوئی نہیں جانتا کہ امریکی صدرجوبائیڈن کا رویہ کیا ہوگا لہٰذا پاکستان کی تشویش اور فکر موجودہ وقت کے ساتھ آنے والے دنوں پر بھی لگی ہوئی ہے کیونکہ معاملات اس جانب تو ہیں کہ امریکی فوج افغانستان کی سرزمین چھوڑ رہی ہے مگر اس کے بعد کیا ہوگا اس حوالے سے امریکا کی جانب سے مسلسل خاموشی ہے،ان تمام باتوں کے باوجود چاہے کچھ بھی ہو پاکستان نے واضح طورپر یہ کہہ دیاہے کہ اس مسئلے میں پاکستان اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیگا۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭