وزیر احمد جوگیزئی
اس دنیا میں انسان کے پاس آپشن نہایت ہی محدود ہو تے ہیں نہ ہی انسان اس دنیا میں اپنے ماں باپ خود چن سکتا ہے اور نہ ہی ہمسائے خود چن سکتا ہے،جو انسان کو مل جائے اسی کے ساتھ گزرا کرنا ہو تا ہے،جو نصیب میں ہو اسی کے ساتھ رہنا ہو تا ہے اور اچھے نصیب اور برے نصیب بھی کوئی چیز نہیں ہو تے ہیں،جو بھی ملے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دین ہو تی ہے،جو مل جائے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ سمجھ کر احتیاط کے ساتھ سنبھال لینا چاہیے۔ہماری جغرافیائی صورتحال اس قسم کی ہے کہ ہمسائیوں کے ساتھ بہتر تعلقات شاید ہمارے بس میں نہیں تھے۔ہمیں جو ہمسائے ملے ان میں سے ایک کی کوکھ سے تو ہم نے جنم لیا۔اس کے ساتھ ہماری مد بھیڑ ہو تی رہتی ہے اور جس طرح کی صورتحال میں پاکستان کا قیام ہو ا تھا اس صورتحال میں اسی قسم کی مد بھیڑ ہو تی ہی ہے۔لیکن ہمارے باقی ہمسائے جن میں چین،ایران اور افغانستان شامل ہیں،ان میں سے چین ایک ایسا ملک ہے جو کہ ایک ہلکی پٹی کے ذریعے پاکستان سے جڑا ہوا ہے لیکن،وہ پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے۔اور وہ اس وقت دنیا کی اقتصادی قوتوں میں سے ایک ہے،ہمارے دوسرے ہمسائیوں میں افغانستان اور ایران ہیں۔
ماضی میں ان دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو وہ نہایت ہی دلچسپ ہے۔جس دور میں ان دونوں ممالک میں با دشاہت تھی اس دور میں اگر چلے جا ئیں تو ہمیں با دشاہت اور عوام کے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے،ایران کا بادشا ہ پاکستان پر بہت مہربان تھا اور ایران کی عوام پاکستان کے خلا ف تھی اسی طرح افغانستان کا بادشاہ پاکستان کے خلا ف تھا لیکن افغان عوام پاکستان کے دوست تھے لیکن حالات ایک جیسے نہ رہے اور دونوں ملکوں میں آگے پیچھے انقلاب آئے اور ان دونوں انقلابوں کا پاکستان پر اثر ہونا لازم اور ملزوم تھا۔ایران کی صورتحال کا تو پاکستان پر اتنا اثر نہیں ہو ا لیکن افغانستان کی صورتحال پاکستان پر بہت بری طرح اثر انداز ہو ئی،لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے،اور ان کے ساتھ متعدد نئے چیلنجز بھی پاکستان کو درپیش ہو ئے اور ان نئی مشکلا ت کے باعث پاکستان کی معیشت اور معا شرے کو بہت نقصان بھی ہوا،دوسری طرف بڑی تعداد میں افغان مہاجرین ایران بھی گئے،لیکن ایران نے ان کو بین الااقوامی قوانین کے مطابق رکھا،ان کی خدمت بھی کی لیکن ان کو اپنے ملک میں پھیلنے نہیں دیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد ان مہاجرین کو واپس افغانستان روانہ بھی کر دیا لیکن اس کے بر عکس پاکستان نے مہاجرین کے معاملے کو مس ہینڈل کیا۔ان کو اس طرح نہیں رکھ سکا جیسا کہ بین الا اقوامی قوانین کے مطابق رکھا جانا چاہیے ان کو پورے پاکستان میں پھیل جانے کی کھلی چھٹی دے دی گئی،اس کے ساتھ ساتھ افغان جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلہ کو مذا ق میں ہینڈل کرنے کی کوشش کی ہے اور کبھی اس مسئلہ کو اتنا سنجیدہ لیا ہی نہیں ہے جتنا کہ ہمیں لینا چاہیے تھا،جس وقت روس نے افغانستان سے شکست کھا کر انخلا کیا اس دور میں افغانستان کی تعمیر نو کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور افغان قوم کی قوت افغان طالبان کی شکل میں ہمارے سامنے آئی اور افغان طالبان ایک گروہ نہیں ہیں بلکہ افغان قوم کا اہم حصہ ہیں،جب طالبان 90ء کی دہائی میں افغانستان پر غالب ہو ئے تھے اور انھوں نے افغانستان میں اپنی حکومت بنائی تھی تو اس وقت پاکستان،یو اے ای اور سعودی عرب ہی وہ تین ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا،لیکن یہ حکومت بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور امریکہ نے افغانستان میں قسمت آزائی کی اور امریکہ نے اس حوالے سے انگریز اور روس سے بھی کو ئی سبق نہیں سیکھا اور تاریخ سے سبق کم ہی سیکھا جاتا ہے۔
2000ء کی دہائی میں امریکہ نے افغانستان پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔لیکن 20سال کی مسلسل جنگ کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں اپنا سکہ نہیں جما سکا لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست اور افغانستان کا فاتح ہونا افغان قوم کا نصیب ہے۔افغانستان کی قوم کی کامیابیوں کی تعریف نہ کرنا اور ان کی جرأت اور بہادری کی داد نہ دینا غلطی ہو گی لیکن یہاں پر جو بات کرنے کی ہے کہ افغانستان کو جنگ کے بعد تعمیر اور ترقی کی ضرورت ہو گی۔بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے منصوبے شروع کیے جانے چاہیے ان سے افغانستان کا مستقبل سنوارا جاسکتا ہے میں یہ بات پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اس سلسلے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو افغانستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا ہو گا۔افغانستان کو اس کی اشد ضرورت بھی ہے۔افغانستان میں امن کا براہ راست اثر پاکستان کے امن پر بھی پڑتا ہے۔اور اگر افغانستان میں صورتحال خراب ہو تی ہے تو اس کا براہ راست اثر بلوچستان اور سابقہ فاٹا اضلا ع پر پڑے گا،لہٰذا ہمیں تو افغانستان کے امن اور ترقی کے لیے ہر ممکن کو شش کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کے لیے جو نیا پلان دیا ہے اور نا راض بلوچوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی زور دار آواز لگائی ہے،کہ ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنے کا ارادہ کیا ہے ارادہ تو اچھا ہے لیکن اس کے لیے ایک واضح لا ئحہ عمل کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ان نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ناراض بلوچ ناراض کیوں ہیں؟ جبکہ پاکستان نے ان کا کچھ نہیں بگا ڑا اس سلسلے میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اس پردے کو چاک کرنے کی ضرورت ہے۔ناراضگی کن امور پر ہے اور اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں،یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ناراض بلوچوں سے بات کرنے کا یقینا بہت فائدہ ہو گا،ان کو جو تحفظات ہیں اور ان جو گارنٹی چاہیے اس حوالے سے وزیر اعظم صاحب صلاح مشورے کریں،لیکن بہر حال معاملات کی خرابی کی وجوہات کو ضرور تلاش کیا جائے۔بلوچستان کا مسئلہ یقینا حل طلب ہے اور حل اسلام آباد میں موجود ہے اگر کھلے دل سے صاف نیت سے بلوچستان کی قیادت سے اکراس دی بورڈ مشاورت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس معاملہ کا کوئی اچھا نتیجہ نہ نکلے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭