تازہ تر ین

قوم پرست عناصر سے بات چیت، اچھا اقدام

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کو ہر دور میں بے پناہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا رہا ہے،کبھی یہ چیلنجز بطور قوم ہمیں اپنی غلطیوں کے باعث بھگتنے پڑے اور کبھی ہم پر باہر سے مسلط کیے گئے ہیں۔80ء کی دہائی میں افغانستان سے سویت یونین کے انخلا کے بعد پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کی صورت میں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا،یہ ایک ایسا چیلنج تھا جس نے نہ صرف طویل عرصے پاکستان کی معیشت پر دباؤ ڈالے رکھا بلکہ پاکستان کے سماج کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا، پاکستان میں کلا شنکوف اور ڈرگ کلچر عام ہوا۔بہر حال ماضی میں جو بھی ہوا وہ تو قصہ پارینہ بن چکا ہے۔لیکن ایک بار پھر پاکستان کو معاشی لحاظ سے ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ایک طرف تو افغانستان کی صورتحال خراب ہونے کے باعث پاکستان میں دہشت گردی بڑھنے کے خدشات ہیں تو دوسری طرف افغان مہاجرین کی آمد کی صورت میں پاکستان کی معیشت کو نئے سرے سے شدید بوجھ کا سامنا کرنا ہو گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس طرح پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے نکل رہے ہیں اور جس تیزی سے نکل رہے ہیں ان سے اس بات کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کو ئی مدد کریں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ علاقائی قوتوں اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو ساتھ لے کر چلے اور افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے چین،روس،ایران،ترکی سے مدد لی جائے۔افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا اسٹیک افغانستان میں سب سے زیادہ ہے اور افغانستان کی صورتحال خراب ہونے سے متاثر بھی سب سے زیادہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہی ہوں گے۔
پاکستان نے گزشتہ 15سال میں بہت زیادہ دہشت گردی کا سامنا کیا ہے اور اس کے بعد پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی میکنزم اور دیگر سیکورٹی اقدامات میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے،افغانستان کی سرحد پر باڑ کی تنصیب اور نئی چوکیوں کا قیام پاکستان کی سیکورٹی کے لیے اہم ہے۔پاکستان کسی بھی صورت میں ایک بار پھر بد امنی کی لہر کا شکار ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔پاکستان کو دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں 150ارب ڈالر اور 70ہزار شہریوں کی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ 20سال تک نہ پاکستان میں کو ئی سرمایہ کاری آئی اور نہ ہی پاکستان میں کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوسکے،سیاحت کا شعبہ جس پر موجودہ حکومت اب توجہ دے رہی ہے یہ شعبہ گزشتہ 15سا ل ویرانی کی تصویر بنا رہا۔پاکستا ن تحریک انصاف کی حکومت نے اس ضمن میں چند اچھے اقدامات کیے ہیں جن کا میں یہاں پر ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ان اقدامات میں سے ایک سرحدی علاقوں میں بارڈر ما رکیٹس کا قیام ہے۔جس کے ذریعے یقینا خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو بہت فائدہ ہو گا۔پاکستان کی حکومت واضح کر چکی ہے کہ پاکستان کی اب پالیسی جیو اسٹرٹیجک سے بدل کر جیو اکنامکس پر مرکوز ہے،اس کا سیدھے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ پاکستان اب مختلف ممالک سے سیاسی نہیں بلکہ معیشت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے بلکہ مستحکم بھی کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور افغانستان کے راستے سے وسط ایشیا ء تک پاکستا ن زمینی راستے سے تجارت کرسکے۔حال ہی میں تاجکستان سے کراچی تک زمینی راستے سے تجارت کا آغاز کیا گیا ہے جو کہ بہت ہی خوش آئند ہے۔پاکستان کو سی پیک منصوبے کو چین کی مدد سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے یہ منصوبہ یقینا پاکستان کی معاشی لائف لائن ہے اور اس منصوبے کے فیز ٹو کی جلد از جلد تکمیل پاکستان کے مفاد میں ہے۔لیکن اس کے لیے بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔اس کے بغیر،بلوچستان اور خصوصاً گوادر اپنی پوری صلاحیت کے مطابق اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔وزیر اعظم نے حال ہی میں گوادر میں فیز ٹو کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کر دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے،یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ گوادر میں سرمایہ کاروں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے صنعتیں چل پڑی ہیں اور مزید پر کام جا ری ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے بلوچستان کے قوم پرست عناصر سے بھی بات چیت کرنے عندیہ دیا گیا ہے جو کہ میری رائے میں وزیر اعظم کی اچھی پالیسی ہے اور پاکستان کی امن پر توجہ دینے کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گی۔ وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور وفاق بلوچستان کے 131ترقیاتی منصوبوں پر 700ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کرنے جا رہا ہے۔جبکہ اس سال صوبائی حکومت کا ترقیاتی بجٹ بھی ریکارڈ 180ارب روپے رکھا گیا ہے جس کے باعث صوبے کو ترقی یافتہ بنانے میں مدد ملے گی۔
واپس افغانستان کی صورتحال کی طرف آتے ہیں،پاکستان کو آخری لمحے تک افغانستان میں سیاسی تصفیے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ افغانستان کے حالات ایک حد سے زیادہ خراب نہ ہو ں۔طالبان کے ترجمان کی جانب سے افغان حکومت کو ایک امن پلان دینے کا عندیہ دیا گیا ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان اب بھی امن عمل سے دستبرادر نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستان کا روشن مستقبل پاکستان کی معیشت سے جڑا ہے اور پاکستان کی معیشت کو امن اور استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ ابھی تو افغانستان سمیت خطے کی صورتحال غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے لیکن بہر حال امید رکھنی چاہیے کہ اس حوالے سے آنے والے مہینوں میں جو کچھ ہو پاکستان کے حق میں بہتر ہو۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain