ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کی معیشت میں مثبت معاشی اشاریے دیکھے جا رہے ہیں،تقریباً تمام ہی شعبوں میں بہتری کے آثار نمایا ں ہیں جس کا کریڈیٹ حکومت لے رہی ہے اور لینا بھی چاہیے کیونکہ بہر حال کرونا وائرس کی شدید لہر کے دوران یہ حکومت کے لیے کئے گئے فیصلے اور پالیسیاں ہی تھیں جن کی بدولت پاکستان کی معیشت کافی حد تک کرونا وائرس کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہی ہے آج ہم معیشت کے حوالے سے مثبت چیزوں کے علاوہ معیشت کو درپیش خدشات کے بارے میں بھی بات کریں گے۔اس ضمن میں پہلی چیز تو یہ ہے کہ پاکستان نے کامیابی سے ایک ارب ڈالر کے یو رو بانڈز جاری کیے ہیں جو کہ عالمی سرمایہ کاروں کے پاکستان کی بہتر ہو تی ہوئی معیشت پر اعتماد کا مظہر ہے۔پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر پانچ سال کی بلند ترین شرح 18.2ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں،جبکہ پاکستان کے مجموعی زر مبادلہ کے ذخائر 24.2ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں جو کہ اکتوبر 2016ء کے بعد زر مبادلہ ذخائر کی بلند ترین شرح ہے۔بڑھتے ہوئے زر مبادلہ ذخائر سے پاکستان کی کرنسی میں استحکام آئے گا۔پاکستان کو تجارتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کے حوالے سے بھی سپورٹ ملے گی۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بینکوں کے کھاتوں میں موجود رقوم میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔رواں مالی سال 2021-22میں پاکستانی بینکوں میں موجود رقم 19.7کھرب روپے سے تجاوز کر گئی ہیں جو کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت 22فیصد زیادہ ہیں،ماہانہ بنیادوں پر اس شرح میں 10فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے،جو کہ ایک نہایت ہی مثبت بات ہے۔
ماہرین کے مطابق بینک کھاتوں میں نمایاں اضافے کی وجہ رواں سال بیرون ملک سے موصول ہو نے والی ریکارڈ ترسیلات زر ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے باعث عوام کی طرف سے پیسے کا کم خرچ بھی بینک کھاتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بینکوں سے قرضوں کی ڈیمانڈ میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اب پاکستان میں لوگ پیسہ لگا رہے ہیں اور کاروبار چل پڑا ہے۔وزیر اعظم عمران خان اس وقت ازبکستان میں موجود ہیں اور پاکستان اور ازبکستان کے درمیان پی ٹی آئی یعنی کہ ترجیحی تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں نمایاں اضافے کا امکان ہے،پاکستان روایتی طور پر تجارت کے لیے امریکہ اور یورپ کی منڈیوں پر ہی انحصار کرتا رہا ہے لیکن جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالموں میں بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے نئی اور غیر روایتی منڈیوں کی جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے،وسط ایشیا ء بھی دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہو ئی ایک نئی منڈی ہے جس سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے،یہ خطہ معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کے شعبوں میں بھی خود کفیل ہے اور پاکستان کے لیے اس خطے کے ساتھ تجارت بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کا وشیں قابل قدر ہیں۔لیکن جہاں پر معیشت کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں وہیں پر خدشات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔خطے کی صورتحال پاکستان کی معیشت کے لیے ایک غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی کا روائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ دگر گوں ہوتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔طالبان پاکستان اورافغانستان کے درمیان اہم تجارتی گزر گاہ چمن پر قابض ہو چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان اس راستے سے تجارت معطل ہے۔غیر یقینی کی اس صورتحال کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ جو کہ گزشتہ دنوں 48000پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر گئی تھی اب جمود کا شکار دیکھائی دے رہی ہے۔معلوم ایسا ہو رہا ہے کہ سرمایہ کار خطے کی صورتحال اور اس کے پاکستان پر سیکورٹی کے حوالے سے مرتب ہو نے والے اثرات کے ضمن میں محتاط ہیں۔جہاں پر افغانستان کی صورتحال معیشت کے لیے یقینا ایک بڑا چیلنج ہے وہیں پر عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہو ئی قیمتیں بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔گزشتہ کئی ہفتوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور اگر یہ رجحان اسی طرح برقرار رہا تو نہ صرف یہ پاکستان کے امپورٹ بل میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی خا طر خواہ اضافہ ہو نے کا امکان ہے بلکہ میرا موقف صرف یہ ہے کہ حکومت اور کاروباری برادری دونوں اس ملک کی معیشت کے مرکزی اسٹیک ہو لڈرز ہیں دونوں فریقین کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہیے تاکہ ملک کی معیشت کو بہتر انداز میں آگے لے کر چلا جاسکے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کہ مختلف خطرات کا سامنا کر رہا ہے اور مضبوط معیشت پاکستان کی سلامتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے،مضبوط اور توانا معیشت ہی ملکی سلامتی کی ضامن ہوسکتی ہے اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭