تازہ تر ین

قربانی کا مفہوم

نصیر ڈاھا
عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک عید کی اصل گہما گہمی، جوش و خروش اور ولولہ اپنے عروج پر ہوگا۔ بڑے چھوٹے، لڑکے بالے سب اپنے اپنے حصے کی قربانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہوچکے ہوں گے اور پھر جب عید کی نماز ادا کرچکے ہوں گے تب وہ اپنی چھریاں اور ٹوکے سنبھالیں گے اور سنتِ ابراہیمی کی احسن طریقے سے ادائیگی میں مصروف ہوجائیں گے۔
کرونا کی اس موذی وبا کے دوران ہماری یہ دوسری بقرہ عید ہوگی۔ اگرچہ وبا نے گزشتہ سال اپنے پنجے بری طرح گاڑ رکھے تھے اور امکان تھا کہ امسال بہت کم لوگ اس فریضہ کی ادائیگی کی جانب توجہ دیں گے لیکن مقامِ شکر ہے کہ وبائی ایام کے دوران بھی لوگوں کا دینی جوش وجذبہ ماند نہیں پڑا اور انھوں نے مشکلات کے باوجود اس فرض کی ادائیگی بڑے احسن طریقے سے کی۔ اس دوران اگرچہ خدشہ تھا کہ میل ملاپ کے عروج پر ہونے اور گلیوں ِ، سڑکوں میں گندے پانی کے ٹھہراؤ اور الائشوں کی بہتات کے باعث پھیلنے والی گندگی اور بو کے سبب کرونا میں شدت رونما ہوگی اور مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جائے گی لیکن مقامِ شکر ہے کہ یہ خوف اور خدشہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم کے باعث خطرناک صورت حال اختیار نہ کرسکا اور عید بخیریت گزر گئی۔
امسال بھی اگرچہ کرونا کی یہ وبا موجود ہے اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عید کی گہماگہمی اور آپس میں میل جول کے باعث کرونا کی یہ وبا، جسے فی الوقت دبانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں ایک بار پھر سراٹھا کر ہمیں خطرناک صورت حال سے دوچار کردے گی۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ ایسا نہ ہو اور ہمارا مذہبی تہوار اچھے اور پرامن و پرسکون انداز میں گزر جائے اور ہم ایک اہم ترین سنت جو صاحب استطاعت لوگوں کے لیے فرض کا درجہ رکھتی ہے، ادا کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں۔
بقرہ عید پر قربانی اگرچہ صاحب استطاعت افراد کے لیے فرض کا درجہ رکھتی ہے بعینہ جس طرح ان لوگوں پر حج کی ادائیگی فرض ہوتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ عام مسلمان بھی جو تھوڑی بہت بھی گنجائش رکھتا ہو، قربانی کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اللہ کے ہاں سرخرو ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے بڑے جانور میں حصہ ڈال لیاجاتاہے یا چھوٹا جانور بکرا، بھیڑ وغیرہ سستے داموں خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ جذبہ لائق تحسین ہے لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ہم خود کو بہت سی مشکلات کا شکار بنا ڈالتے ہیں اور قربانی کے اصل مفہوم اور مقصد کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ جانور کی قربانی کا مقصد محض خون بہانا ہی نہیں بلکہ اس کے اصل مفہوم سے آگاہی اور پھر اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے محبوب ترین بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کی جو کوشش کی اور پھر اللہ پاک نے اس کی جگہ ایک جانور بھیج دیا جسے ذبح کیا گیا تو اس کا مطلب تھا کہ اللہ کے راستے میں اپنی محبوب ترین چیز کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جانا چاہیے۔ قربانی کے لیے بھی بہترین، خوبصورت اور کسی قسم کے نقص سے پاک جانور کا حکم دیا گیا ہے۔ اب دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ صاحبِ استطاعت لوگ اچھے اور مہنگے جانور تو خرید لیتے ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی وہ اپنی نمود ونمائش کو اولین اہمیت دیتے ہیں۔ قرب وجوار میں کسی نے ایک لاکھ کا جانور خریدا ہے تو دوسرے کی کوشش ہوگی کہ میں ڈیڑھ لاکھ کا خریدوں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ کئی جانوروں کی قیمتیں پچاس ساٹھ لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہیں۔ ایک جانور پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنا کوئی اچھی بات نہیں کہ یہ صرف دکھلاوے اور اپنی امارت کی نمائش کے زمرے میں ہی آئے گا۔ اس کے برعکس اگر اسی رقم سے درجنوں جانور خرید کر ان کا گوشت غریب علاقوں میں لے جاکر بانٹ دیا جائے تو اس سے مذہبی فریضہ بھی ادا ہوجائے گا اور سماجی ذمہ داری بھی۔ یہی اصول وہ لوگ بھی اپنا سکتے ہیں جو چار پانچ لاکھ روپے میں ایک جانور ہی خریدتے ہیں۔ پھر ایک اور چیز بھی ہے کہ ہم بکرا دنبہ وغیرہ کی قربانی تو دے دیتے ہیں لیکن اس کا گوشت تقسیم کرنے کے بجائے فریزر میں ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے جانور کی قربانی دینے والے گھروں میں باہر سے جب کسی بڑے جانور کا گوشت آتا ہے تو وہ اپنی طرف سے اسے ہی آگے دوسرے گھر میں بھیج دیتے ہیں۔ گویا ہم قربانی کے لیے اچھے اور مہنگے جانور کا انتخاب کرتے ہوئے رقم خرچ تو کرلیتے ہیں لیکن پھر اس کے ثمرات سے پوری طرح فائدہ اٹھانے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔ علاوہ ازیں گھر کے باہر جانور ذبح کرتے ہوئے خون وغیرہ اور دیگر الائشوں کو پوری طرح صاف بھی نہیں کرتے جس سے گندگی پھیلتی ہے جو دوسروں کے لیے بے انتہا اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے حکومت نے مویشی منڈیوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اب دھیرے دھیرے ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں کہ لوگ گھروں کے بجائے کسی کھلے میدان وغیرہ میں جانور قربان کریں تاکہ گندگی نہ پھیلے اور ماحول آلودہ نہ ہو۔ ہمیں اپنی سہولت اور آسائش کا خیال تو رکھنا چاہیے لیکن اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں کو اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے تاکہ کل حکومت کو ایسا موقع نہ ملے کہ وہ ہم پر نئی پابندیاں عائد کردے۔
(دبئی میں مقیم‘ سیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain