سیدتابش الوری
برطانوی پارلیمنٹ کو دنیا بھر میں پارلیمنٹ کی ماں کا درجہ حاصل ہے جسے آ ئینی و انتظامی ا ختیارات کے اعتبار سے مطلق العنان ادارہ سمجھا جاتا ہے اس کی مطلق العنا نی کی کوئی تعریف و تشریح موجودنہیں نہ کوئی ایسا ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جوپارلیمنٹ کے اختیارات کی بے پناہی کا تعین کر تا، ہو تا ہم عدالتی و دانشورانہ آرا کی روشنی میں اب تک اجتماع عمومی یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو وہ سب کچھ کر نے کا اختیار ہے جو عملًا”اور فطرتاً ”ناممکن نہ ہو۔یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندوں کی وہ اعلیٰ ترین ہیئت حاکمہ ہے جو ریاست اور مملکت کے تمام اداروں پرقوت مقتدرہ کی حیثیت رکھتی ہے ملک کے معاملات بہتر طور پر چلانے کے لئے اسے تحریری و غیر تحریری آئین کے تحت قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہو تا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ حزب اقتدار اور حزب اختلاف پر مشتمل ہوتی ہے اور متعینہ حدود میں حکومت اپوزیشن سے مشاورت و شراکت رکھتی ہے۔ پاکستان میں بھی چونکہ پارلیمانی نظام اپنایا گیا ہے اور اسکے اپنے آئین کے تحت ایک منتخبہ پارلیمنٹ موجود ہے جو دعوے کی حد تک بر طانوی پارلیما نی روایات ہی کی بہت حد تک آئینہ دار ہے بلا شبہ، عسکری اقتدار کے ادوار نکال کر،ہمارے ہاں بھی شاندار پارلیمانی روایات کے مثالیؒ قائم ہوئے ہیں جن پر بجا طور پر فخرکیا جا سکتا ہے پارلیمنٹ نے اپنے مطلق العنان اقتدار اعلیٰ کو عملًا”منوایا بھی ہے اور اپنی طاقت و صلاحیت کو ثابت بھی کیا ہے۔
قدرتی طور پر موجودہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی مثالی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں بلکہ اس پس منظر میں غیر معمولی کارکردگی کا تصور کیا جا رہا تھا کہ جناب عمران خان نے اپنی گذشتہ انتخابی مہم کے دوران عوامی شعور بیدار کر کے مستقبل کی پارلیمنٹ اور حکومت کا ایک نیا انقلابی منظر نامہ بڑی کامیابی سے پیش کیا تھا جس پر لوگوں نے یقین بھی کر لیا تھا لیکن تین سال کے غیر جانبدارانہ مشاہدے کے بعد نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ نے عوامی توقعات کے مطابق قومی و ملکی ترقی و خوش حالی کیلئے کوئی غیر معمولی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اپنا معیار اور اطوار اس در جے تک لے آئے جس سے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ان مظاہر نے بلا شبہ باشعور شائستہ اور جمہوری طبقوں کو بری طرح مایوس ہی نہیں کیا بلکہ ان کی روحوں کو بھی گھائل کر کے رکھ دیا۔
موجودہ پارلیمنٹ میں ایک مقبول لیڈر کی حمایت یافتہ ایک مضبوط مقتدر پارٹی اور معروف تجربہ کار سیاسی شخصیت کے زیر کمان ایک جانداربڑی اپوزیشن موجود تھی دونوں کے درمیان تعدادکا بھی زیادہ فرق نہیں تھا۔ پارلیمانی روایات کے مطابق حزب اقتدار اور حزب اختلاف گاڑی کے دو پہیئے ہوتے ہیں دونوں مل کر چلیں تو سفر اور منزل آسان ہو جایا کر تی ہے لیکن اس مرتبہ نیا تلخ تجربہ ہوا اور پارلیمانی گاڑی کے دونوں پہیئے پہلے روز ہی سے پنکچر ہوکر ٹو چین سے گھسیٹے جاتے رہے۔
پارلیمنٹ کا آغاز ہی پارلیمانی لیڈر اور اپوزیشن لیڈر کے مصافحوں اور تقریروں سے ہو ا کرتا ہے لیکن پہلے دن کیا یہاں تو آج کے دن تک مصافحہ ہوا نہ انکی پالیسی تقاریر شائستگی اور خاموشی سے سنی گئیں۔ پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا منتخب ادارہ ہوتا ہے جس کے سپرد پالیسی سازی،قانون سازی اور داخلی و خا رجی امور کی نگہبانی و انجام دہی ہوتا ہے خوش قسمتی سے ہماری پارلیمنٹ میں اکثر بڑے سیاسی مکاتب فکر کی بڑی متوازن نمائندگی موجود تھی خیال تھا کہ وقفہ سوالات میں محکمانہ کارکردگی کے پرخچے اڑیں گے توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے فوری اہمیت کے معاملات سامنے آئیں گے نکتہ اعتراض قانونی سوالات ا بھا ریں گے تحاریک التوا قومی اہمیت کے سنگین مسائل کو زیر بحث لائیں گی تحاریک استحقاق کے ذریعے ہاؤس اور اراکین اسمبلی کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئیگا، انسانی زندگی آسان بنانے کیلئے نئے نئے قوانین زیر غور آئیں گے قومی موضوعات پر پارلیمانی مباحثوں میں موثر حل پیش کئے جائیں گے اور بجٹ سیشن میں نہ صرف ملک کے بہتر مستقبل کا انتظامی و مالیاتی خاکہ پیش ہو گا بلکہ ہر رکن اپنے ا پنے انتخابی حلقے کی ضروریات و مطالبات آئینہ کریگا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! سب امیدیں نقش بر آب ثابت ہوتی رہیں وعدوں کے لاشے بے گور و کفن دفن ہوتے رہے انقلاب کے خواب، کرچی کرچی ہوکربکھر تے رہے یہاں تک کہ دشنام طرازی اور گھونسوں مکوں کے بعد پارلیمنٹ میں وہ شرمناک مناظر بھی دیکھ لئے گئے جو کبھی چشم فلک نے بھی نہیں دیکھے تھے۔
عمران خان سیاسی افق پر ایک کرشماتی شخصیت کے طور پر ابھرے، وہ بلا شک، بہت سی خوبیوں کے حامل ہیں ابھی تک ان کی ذاتی دیانت کا سکہ چل رہا ہے وہ ایک موثر عوامی مقرر ہیں کئی بین الاقوامی اداروْں میں انہو ں نے ا پنے معر کتہ الارا خطاب سے تہلکہ مچایاہے انکے زور بیان ہی سے 2018 کے انتخابات کے وقت لاکھوں نئے ووٹروں کا موثر حلقہ انکا گرویدہ ہو کر گلی گلی اور جلوس در جلوس نکلا یہ سب تسلیم شدہ ناقابل تردید حقائق ہیں لیکن یہ بھی تو سورج کی طرح روشن حقیقت ہے کہ وہ ابتک بے لوث اور بے بس عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور ان پر کشش انتخابی وعدوں کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکے جن سے انہوں نے عوامی و سیاسی جذبات کو آتش فشاں بنادیا تھا وہ محب وطن، فرض شناس اور تجربہ کار لوگوں کی ایسی ٹیم نہ بنا سکے جو مشکلات کے پہاڑریزہ ریزہ کرکے روشن مستقبل کا صاف و شفاف راستہ تراش سکتی۔
تاریخ نگراں تھی وقت اصرار کر رہاتھا اور حالات و واقعات بے صبری سے تقاضہ کر رہے تھے ساری نظریں عمران خان پر تھیں انھیں اپنی انا و غنا، پسند و ناپسند، جذبات و تعصبات اور ہنگامی مفادات و مطالبات سے بالا تر ہو کر ایک نئے پاکستان کے لئے ایک نیا سیاستدان بن کر ابھر نا تھا۔ایک کرشماتی قوت بنا کرقدرت نے انھیں ایک تاریخ ساز موقع فراہم کیا تھاوہ پارلیمنٹ میں ایک نئی سیاست کا آغاز کرتے، ایک نئی مفاہمت کا راستہ اپناتے اور سب کو ساتھ لیکر ایک نیا سیاسی و معاشی نظام روشناس کرا دیتے اپوزیشن قدرتی طور پر ابتدا میں، شکست خوردگی اورپژ مردگی کا شکار تھی اگر عوام کی زندگی آسان بنانے کے لئے بڑے بڑے پیکیج دئے جاتے تو وہ خواہش کے باوجود مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتی تھی اور کرتی تو اپنا مزید حشر بھی دیکھ لیتی۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے قیمتی وقت کے انمول لمحات ضائع کئے جا چکے ہیں پھر بھی قوت ارادی کی بے پناہی کے ساتھ کچھ بڑے لوگ گزرتے وقت سے اپنے حق میں فیصلے کرا لیا کرتے ہیں۔ عمران خان کو بھی آگے بڑھنا ہو گا اور حالات کے تیور دیکھ کر خود کو نئے عملی سانچوں میں ڈھالنا ہو گا انہیں سمجھنا ہو گا کہ اپوزیشن سے مفاہمت کے بغیر پارلیمانی نظام کبھی کامیابی سے نہیں چل سکتا اس کا سارا سانچہ ڈھانچہ ہی ایساہے کہ باہمی مشاورت و معاونت کے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکتے۔
احتساب اپنی جگہ بے حد اہم سہی! گذشتہ انتخابات میں اس نعرے کو کامیابی کے ہتھیار کے طور پر موثر انداز میں استعمال کیا گیا اب بھی طاقتور اداروں کی جانب سے احتسابی عمل جاری ہے کچھ لوگ الزامات کی بنیادپر گرفتار ہیں کچھ لوگ عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں اور کچھ لوگ سزا یاب بھی ہو چکے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب اراکین کی حیثیت سے سب یکساں احترام اور مساوی استحقاق رکھتے ہیں جب تک وہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم نہ کر دیئے جائیں آئین کے مطابق انہیں عوامی نمائند گی کے تمام تر حقوق دینے ہوں گے۔
بالکل سیدھی سی بات ہے کہ جن عام انتخابات میں کامیابی نے تحریک انصاف یا انکے اتحادیوں کو وزارت عظمیٰ اور حکومت عطا کی ہے انہی انتخابات میں کامیابی نے دوسری سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو حزب اختلاف کی اہم ذمہ داری سپرد کی ہے لہٰذا ہر منتخب رکن کو برابری دینی ہوگی اورآئین و قانون اور قوائد و ضوابط کے مطابق تمام پارلیمانی گروپوں کو ساتھ لیکر حال و مستقبل کے قومی و ملی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہو گا ملک میں کوئی ایک جماعت نہ انقلاب لا سکتی ہے اور نہ عوام نے ایسا اختیار کسی کو دیا ہے۔ بہتر ہو گا اگر مزید تباہی کے بغیر، آئین و قانون کے مطابق اب بھی اپنی حدود و قیود میں اپنی ا پنی ذمہ داریاں نبھانے کا عہد کر لیا جائے اور قوم کے سامنے سرخروئی کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے ایک قابل عمل پارلیمانی حکمت عملی ا پنالی جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر ہم سب نے نوشتہ ئدیوار نہ پڑھا اور تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو تاریخ سبق سکھانے میں زیادہ دیرنہیں لگا ئے گی۔
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭