اسرار ایوب
ہمارے مسائل کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں کہ ہم لوگ بلاتخصیص ایک نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں جسے ”سٹریس ڈِس آرڈر“ کہتے ہیں،یہ مرض بنیادی حقوق سے محروم اُن معاشروں میں عام ہوتا ہے جہاں لوگ آئے روز ایسے واقعات سے دوچار رہتے ہیں جو اُنکے جسمانی اور ذہنی توازن کو”ڈِسٹرب“کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں اور کہیں قریب سے اچانک گولیاں چلنے یا بم پھٹنے کی آواز سنائی دے یاآپ دن بھر کے تھکے ہارے گھر پہنچیں اور آگے بجلی پانی بندملے یا گرمیوں کے مہینے میں گیس کا بِل ہزاروں روپئے آجائے(جیسے ایک بار میرا آیاتھا، پورے 43ہزارروپئے اور میں نے گیس والوں کو کہا کہ اتنا بِل وہ بھی گرمیوں میں؟ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جہنم کا کنیکشن میرے گھر سے جاتا ہے؟) وغیرہ وغیرہ، تو آپ کی ”فزیالوجی“آپ کے اندر”سٹریس“پیدا کر دیتی ہے جس کے ساتھ ہی آپ کے جسم میں ”اینڈرینالین اور کارٹیزول“ نامی ہارمونز کا اخراج شروع ہوجاتا ہے جو آپ کو اضافی توانائی مہیا کرتے ہیں تاکہ آپ اُس چیلنج کا مقابلہ کر سکیں یا اُس سے بھاگ سکیں جس نے آپ کے جسمانی و ذہنی توازن کو چھیڑا ہے، لیکن حالات اگر ایسے ہوں (جیسے پاکستان میں اکثر ہوتے ہیں) کہ آپ نہ مقابلہ کر سکیں نہ بھاگ سکیں اور اضافی توانائی استعمال ہونے کے بجائے آپ کے اندر ہی رہ جائے توآپ کا ”سٹریس“ تبدیل ہو کر ”سٹریس ڈِس آرڈر“کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس بیماری کی کچھ علامات گنواتا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ میں درست کہہ رہا ہوں یا غلط؟
اس بیماری میں انسان کو بلا وجہ کی جلدی لاحق ہو جاتی ہے جس کا مظاہرہ ہمارے یہاں سڑکوں پررش کے دوران ہروقت ہوتا رہتا ہے، پچھلی گاڑی کا بس نہیں چلتا ورنہ اگلی گاڑی کے نیچے یا اوپر سے بھی گزر جائے،ہر کوئی جلدی میں دکھائی دیتا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ یہ جلدی ہے کیوں؟ ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسی سڑک پر سفر کر رہے تھے جہاں سے ریل کی پٹڑی بھی گزرتی تھی، ریل کے آنے کا وقت ہوگیا سو پھاٹک بند کیا جانے لگا اور گاڑیاں روک دی گئیں لیکن ایک موٹر سائیکل سوار اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے موٹر سائیکل ٹیڑھی کر کے ادھ کھلے پھاٹک میں سے یوں گزرا جیسے کسی بہت بڑی ایمرجنسی کا شکار ہو لیکن تھوڑا آگے چل کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک گنے کی ریڑھی کے ساتھ موٹر سائیکل پارک کر کے جوس پی رہا ہے۔
اس بیماری میں بات بات پر غصہ آنے لگتا ہے، حتیٰ کہ اپنی غلطیوں پر بھی دوسروں پہ غصہ آتا ہے،غصہ بھی ایساکہ جس میں بے حسی اور بے شرمی کی کوئی حد بھی پار کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک موٹر سائیکل والے صاحب نے مجھے ایک موڑ میں اوورٹیک کرنے کی کوشش کی وہ بھی بائیں جانب سے، اُن کی خوش قسمتی تھی کہ ٹکر ہلکی ہوئی، وہ گرنے کے باوجود زخمی نہیں ہوئے البتہ میری گاڑی کو نقصان پہنچا لیکن وہ شرمندہ ہو نے یا معذرت کرنے کے بجائے الٹا مجھ پرحملہ آور ہو گئے، آس پاس کھڑے لوگ انہیں نہ روکتے توخدا جانے کیا ہوتا؟
اس مرض میں انسان ”سٹیٹ آف کنفیوژن“کا شکار ہو جاتا ہے، اُسے ہر چیز میں سازش کا پہلو دکھائی دینے لگتا ہے، وہ ہر رویے کو بالعموم شک کی نگاہ سے دیکھتاہے، حتیٰ کہ کوئی آپ کے فائدے میں بھی کچھ کہہ رہا ہوتو آپ کو یوں لگے گا جیسے اِس میں بھی اُسی کا کوئی فائدہ پوشیدہ ہوگا۔کوئی آدمی بھی اعتماد کے قابل نہیں رہتا۔ مثلاً میرے بڑے بھائی جو گاڑیاں بنانے والی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک میں شمالی امریکہ(جس میں کینڈا اور میکسیکو کے ریجن بھی شامل ہے) کے ”ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ“ ہیں، انہوں نے ”مینوفیکچرنگ انجینئرنگ سسٹمز“ میں ”پی ایچ ڈی“ کی ہوئی ہے،اور وہ یونیورسٹی آف مِشی گان (امریکہ) میں پروفیسر بھی ہیں، وہ پاکستان آئے اور مجھ سے کہا کہ میری ملاقات ہماری ایک یونیورسٹی(جو سرکاری ہے) کے وائس چانسلر سے کرواؤ تاکہ میں وہاں اپنے والا شعبہ کھلوا کر اُسکی ”ایفی لی ایشن“امریکی یونیورسٹی سے کرواؤں اور میرے وہاں ہونے کا فائدہ میرے ملک کو بھی ہو، تو ہم اس وائس چانسلر صاحب سے ملنے کے لئے چلے گئے، موصوف کیونکہ ”سٹریس ڈِس آرڈر“کا شکار تھے چناچہ ہماری گفتگو کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور غالباً یہ سوچتے رہے کہ کہیں یہ شخص میری جگہ تو نہیں لینا چاہتا؟اوران کے اس رویے کی وجہ سے بات وہیں ختم ہو گئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
اس بیماری میں انسان ”سٹیٹ آف ڈینائل“میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو ذہین ترین اور ہوشیار ترین سمجھنے لگتا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا جیسے کہ پاکستان میں ہوتا ہے۔ آپ خود ہی فرمائیے کہ کیا آپ نے عمومی طور پر انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک کبھی کسی کو اپنی غلطی تسلیم کرتے دیکھا؟ کیا ہمیں اپنی غلطیوں میں بھی دوسروں کی غلطیاں دکھائی نہیں دیتیں؟ ہر بات ”میں“ سے شروع ہو کر ”میں“ پر ہی ختم ہوتی ہے۔اس رویے کی انتہا دیکھئے کہ میری اہلیہ کا بھانجا جو بظاہر ایک بہت اچھے سکول میں پڑھتاہے، کو اُس کی ٹیچر نے ”واٹر میلن“کا اُردو ترجمہ ”تربوزہ“ بتایا، ٹیچر کو اگلے روز لکھ کر بھیجا گیا کہ تربوزہ نہیں ”تربوز“ ہوتا ہے لیکن انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا،چناچہ فیروزالغّات کے صفحے کی تصویر”وٹس ایپ“ کی گئی جہاں تربوزہ نہیں تربوز لکھا تھا، تو انہوں نے (کیا آپ یقین کریں گے)جواب دیا کہ یہ ڈکشنری ہے کوئی آسمانی کتاب نہیں جو غلط نہیں ہو سکتی۔ ہم ایک دو نہیں بلکہ 22کروڑ ماہرین کا ملک بن چکے ہیں تو آپ خود ہی فرمائیے کہ کوئی کیا سیکھے اور کیا سکھائے؟
ہم اتنی سی بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اگر ہمیں لاہور سے راولپنڈی جانا ہو لیکن موٹر وے سے ملتان کی طرف مڑ جائیں، تو جب تک یہ نہیں مانیں گے کہ غلط راستے پر چل رہے ہیں، صحیح راستے پر کیسے چل سکیں گے؟ اور ہمیں یہ بتانے والا کہ ہم غلط راستے پر چل رہے ہیں چاہے ہمارا بدترین دشمن ہی کیوں نہ ہولیکن اُس کی بات ماننے میں فائدہ ہمارا ہو گا یا اُس کا؟اور ملتان کے راستے پرچل کر کیا ہم راولپنڈی پہنچ سکتے ہیں، چاہے کتنے ہی خلوصِ نیت اور مہارت کے ساتھ گاڑی چلاتے رہیں؟ہم جب تک یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ بیمار ہیں ہمارا علاج کیسے ہوگا اور ہمارا علاج نہیں ہوگا تو حالات کیسے درست ہوں گے؟
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭