وزیر احمد جوگیزئی
اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چین کے دورے پر ہیں اور ان کے ساتھ ان کے رفقا کی بڑی تعداد بھی موجود ہے چین ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور پاکستان کا ایک بہت بڑا سپورٹر بھی ہے،حالات اور واقعات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ شاید چین کو ہم سے شکوے اور شکایتیں پیدا ہو گئیں ہیں۔جس کی وجہ سے وزیر خارجہ اپنے وفد کے ہمراہ چین گئے اور اور اس دورے کا بنیادی مقصد چین کی تسلی اور تشفی کروانا ہے۔لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ایسے حالات آخر پیدا کیوں ہوئے ہیں؟ اگر واقعی چین کو پاکستا ن سے شکایتیں پیدا ہو ئیں ہیں تو اس کا موقع کیوں دیا گیا ہے؟
ایک سال سے سن رہے ہیں کہ چین کے صدر آئیں گے اور سی پیک کے منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔پورا سال گزر گیا ہے لیکن نہ چین کے صدر دورے پر آئے ہیں۔اور نہ ہی سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو ا ہے سی پیک منصوبے کی رفتار میں اتنی سست روی کیوں ہے اس کی وجہ تو صرف حکمران ہی بتا سکتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے سی پیک کو مکمل کرنے سے چین کو گوادر سے بلکہ افغانستان کے راستے سے وسط ایشیا ء کو بھی اس منصوبے سے جوڑا جاسکتا ہے۔اور اسی راستے کے ذریعے ہم روس کو بھی بحیرہ عرب تک رسائی دے سکتے ہیں۔لگ بھگ 200سال تک انگریزوں نے یہ پراپیگنڈا کیا کہ روس کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکا جائے اور ہم بھی اسی پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے،اور ہمیں معلوم ہو ا کہ پرا پیگنڈا کتنا طاقتور ہو تا ہے۔لیکن اب جا کر ہماری موٹی عقل میں یہ بات آگئی ہے۔لیکن بہر حال اب چین سے تعلقات کو بڑی سنجیدگی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور کسی بھی سپر پاور کی خوشنودی کی پرواہ کیے بغیر ہی ہمیں سی پیک منصوبے کو بھی مکمل کرنے کی ضرورت ہے اور سی پیک کے منصوبے کے ساتھ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے۔سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے اور پاکستان کی مستقبل میں ترقی کی بنیاد ہو گا اور غالبا ً ہمارے دشمن اور دوست نما دشمن اسی لیے اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں اگر پاکستان میں معاشی طور پر استحکام آگیا تو پھر پاکستان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا اور پاکستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم 70سال تک امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلے ہیں۔ یقینا اس تعلق سے ہمیں بھی فائدے ہوئے ہوں گے لیکن اس تعلق داری سے امریکہ نے بھی فوائد سمیٹے ہیں۔پاکستان اور امریکہ کا تعلق ہمیشہ سے لو اور ہیٹ پر مبنی رہا ہے اور کبھی بھی ان تعلقات میں استحکام نہیں رہا۔اور اگر کسی بھی دو ملکوں کے تعلق کے درمیان کبھی محبت اور کبھی نفرت ہو تو معاملات کبھی بھی درست انداز میں نہیں چلتے ہیں۔
دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان حقیقت پسندانہ تعلقات کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر بہتر انداز میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔جس وقت پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا اسی وقت پاکستان کی جانب خیر سگالی کا ہاتھ بڑھا ئے گا لیکن اس کے لیے ایک اقتصادی قوت بننا ضروری ہے۔آج کل کی دنیا میں اقتصادی قوت ہی خارجہ معاملات میں فیصلہ کن عنصر ہو تی ہے اور ملکوں کی مضبوطی کی ضامن ہو تی ہے۔اب کچھ بات افغانستان کے حوالے سے بھی کرلیتے ہیں۔افغانستان کا مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے جو کہ سلھجنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک ایسی سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے جس کا محور افغانستان کی امداد ہو۔یقینا افغانستان میں طالبان کی آمد کو دنیا اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی ہے اور ان کی مخالفت میں بہت تما شا کیا جائے گا لیکن حل یہی ہے کہ طالبان کی مدد کی جائے تاکہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔اور طالبان کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اس بار پہلے کی نسبت مختلف انداز میں حکمرانی کریں۔طالبان کے پہلے دور میں افغانستان میں امن تو آگیا لیکن ترقی نہیں آسکی تھی اور بنا ترقی کے امن ادھورا ہو تا ہے۔
امن وہی ہوتا ہے جس میں اس ملک کے باشندوں کو خوشحالی بھی نصیب ہو،افغانستان کی ترقی میں افغانستان کے دوست اور ہمسایہ ممالک کا کلیدی کردار ہے،ہمسایہ ممالک کی مدد ہی افغانستان میں ایک نئی روح پھونک سکتی ہے اس کے بغیر افغانستان کے لیے ترقی کرنا آسان کام نہیں ہے۔جو تباہی جنگوں کے نتیجے میں افغانستان میں آئی ہے اس تباہی کے بعد افغانستان کو ترقی دینا ایک تگ و دو والا کام ہو گا،امریکہ نے افغانوں کو فوجی ٹریننگ دی کچھ افغانوں کو پائلٹ بنا دیا اور ان کو اسلحہ اور ہتھیار بھی دے دیے لیکن افغانستان کو مضبوط نہیں کر سکا جب جہاذ میں تیل ہی نہیں ہو گا جہاذ اڑے گا کیسے اور ان جہازوں کا افغانستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس صورت میں پائلٹس اور ان کی ٹریننگ بھی کسی کام کی نہیں ہے۔اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغان فوج جس کی تربیت امریکہ نے کی ہے وہ خود ہی طالبان کے ساتھ شامل نہیں ہو جائے گی؟ اس بات کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا ہے۔امریکہ اتنے سال تک افغانستان میں رہ کر کچھ نہیں کر سکا،افغان فوج سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہیے۔بہر حال پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ خطے اور خصوصا افغانستان میں امن کے لیے تمام وسائل بروکار لائے اور تمام وسائل کا استعمال کیا جائے۔اس مقصد کے لیے چین اور روس کو بھی ساتھ شامل کیا جائے ان ممالک کو ساتھ ملائے بغیر افغانستان میں صیح امن نہیں آسکتا ہے۔وہ امن جو کہ ترقی کی ضمانت بھی ہو۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭