تازہ تر ین

ہمارا جغرافیہ ہی وبالِ جان

رانا زاہد اقبال
پاکستان جغرافیائی حیثیت سے بے مثال اہمیت کا حامل ملک ہے کیونکہ وسطی ایشیا کے تمام تجارتی راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے روایتی مفروضوں میں اس کے محل ِ وقوع کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے لیکن ابتدائی 6 دہائیوں تک اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا جس سے پاکستان ایشیا کی تجارتی گزرگاہ نہیں بن سکا۔پاکستان ایسے ملکوں میں گھرا ہوا ہے جن کا رویہ اس کے ساتھ معاندانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اس کے لئے وبالِ جان بنی رہی۔ 2013ء تک پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے محض امریکہ اور اس کے اتحادی مستفیض ہوتے رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی سر زمین کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے استعمال کیا۔ پھر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا اس وقت غلط استعمال ہوا جب روس مخالف جہاد کو پاکستان میں پروان چڑھایا گیا۔ افغانستان کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس کے سنگین نتائج آج تک بھگتے جا رہے ہیں۔ غرض کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کو کرائے پر چڑھا کر اپنامفاد حاصل کیا۔
تاریخی پہلو سے بھی پاکستان کی حالت قابلِ رشک نہیں تھی۔ یہ علاقہ وسطی ایشیا اور شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی گزرگاہ بنا رہا۔ پھر یہ برطانیہ کی روس کے خلاف جنگ میں سرحدی صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس میں کوئی خوش نما تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک اپنے آپ کو عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نہیں نکال سکا۔ پاکستان کو اگر جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کا معاشی مرکز بننا تھا تو اسے خالص تجارتی انداز میں دیکھنا چاہئے تھا۔ پاکستان ہندوستان کے لئے شمالی اور وسطی ایشیا کے لئے ایک تجارتی گزرگاہ بن سکتا تھا لیکن وہ تو بوجوہ نہیں بن سکا اور اس کے مستقبل قریب میں امکانات بھی معدوم ہیں۔ افغانستان کی حکومت کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کوئی بہت شاندار نہیں ہیں اور اس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ خود افغانستان ہے۔ اشرف غنی پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کاقیام چاہتے ہی نہیں۔
پاکستان کے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ پہلی بار 2013ء میں اس وقت ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے چین کے ساتھ سب سے بڑے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری پر دستخط کئے۔ یہ 3218 کلو میٹر طویل روٹ ہے اور کئی ہائی ویز، ریلویز، پائپ لائنز اور توانائی کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ سی پیک واحد منصوبہ ہے جس کے مکمل ہونے پر دنیا بھر کے ممالک کی نظریں پاکستان اور چین کی معیشت پر لگی ہوں گی اور دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہونے سے تجارتی قافلے اپنی منزل تک پہنچنے میں دشواری محسوس کرتے تھے انہیں آسانی محسوس ہو گی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا جو ابھی سے ہی امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کو کھٹک رہا ہے۔
امریکہ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے وہ اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے ہی ہے۔ امریکہ بھی ہماری طرح برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ 1776ء میں اعلامیہ آزادی پر دستخط ہوئے جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آئی۔ امریکہ کا جغرافیہ یہاں اس کی مدد کو آیا کہ اس کے اور یورپی برِ اعظم کے درمیان سمندر حائل ہے جس سے برطانوی تسلط کا زور ٹوٹ گیا۔ جس وقت یورپی ممالک آپس میں دست و گریباں تھے امریکہ اپنے برِ اعظم میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اس ساری صورتحال سے بخوبی واقف امریکہ بھلا پاکستان اور چین کو کس طرح آرام سے بیٹھنے دے گا کہ پاکستان اور چین مزے سے راہداری بنا کر ترقی کی منازل طے کر لیں۔ امریکہ بھارت کی مدد سے چین اور پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے کیونکہ بھارت چین اور پاکستان کا اس سے بھی بڑا دشمن ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنے ارد گرد کے معاملات پرنظر رکھتے ہوئے صرف اپنی صنعتی ترقی کی طرف دھیان دینا ہو گا۔ ممکن ہے اس میں بہت زیادہ وقت لگ جائے مگر ہمیں اپنے بہتر مستقبل کے لئے ایسا کرنا ہو گا۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain