تازہ تر ین

وزیر اعظم پاکستان۔سستا ترین ملک

میاں انوارالحق رامے
حکومت کے جید وزیروں اور مشیروں نے غیر مستند اعدادوشمار دیکھا کر پاکستان کو سستا ترین ملک قرار دینے کی جسارت کی ہے۔ اگر صاحب فکر و نظر نمائندے اس ویب سائٹ کو مستند مانتے ہیں باقی تلخ حقیقتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر بیان بازی کا بھی شوق پورا کرلیں۔ پاکستان افراط زر یا مہنگائی کے لحاظ سے دنیا میں 18 نمبر پر جگمگا رہا ہے اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا 6 واں خطرناک ملک ہے اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان غیر محفوظ ملک ہے اور رہنے کے قابل نہیں ہے۔ شہریوں کو بلا روک ٹوک جاں و مال کے شدید خطرات لا حق ہیں۔ غریب عوام کی بد دعاؤں سے بچنے کیلئے ضروری ہے وزیر اعظم کو درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں تاکہ وہ غریبوں کی مسلسل آہ و بقا کو سن کر اس کا مداوا بھی کرسکیں۔ حکومت پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ورلڈ بنک کے اعدادوشمار پر بھی غور و فکر کرنے کی عادت ڈالے۔ ورلڈ بینک کے ایک تخمینہ کے مطابق غربت کی شرح 4.4سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے۔ ڈالر کی بنیاد پر قوت خرید کو پیمانہ بنایاگیا ہے۔ پاکستان میں 12.5 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں غربت کا تناسب 39.3 فیصد ہے نچلے متوسط طبقے کی یومیہ آمدنی 3.2 ڈالر ہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی 5.5 ڈالر ہے۔حکومت کے اپنے سرکاری ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق انتہائی کسمپرسی کا شکار خاندانوں کی تعداد 7.24 فیصد سے بڑھ کر 11.94 فیصد ہو گئی ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار(آبادی کی شرح)16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ معاشی صورت حال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48فیصد سے کم ہو کر 12.7 فیصد رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے معیار زندگی ماپنے کی پیمانے کے حوالے سے پاکستان کا نمبر154 واں ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ 153 ممالک کا معیار زندگی پاکستان سے بہتر ہے۔ یو این ڈی پی(UNDP) 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے استحصالی طبقات قانون اور پالیسیوں میں خامیوں کی بدولت زیادہ فوائد جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔غریب اور لاچار کی سرکاری سطح پر کسی بھی ادارے میں شنوائی نہیں ہے۔ عوام الناس کیلئے صحت کارڈ کی سہولت قابل تعریف ہے۔ پولیس ریفارمز اور ادارہ جاتی اصلاحات ابھی تشنہ تکمیل ہیں۔ پاکستان میں صرف معاشی بنیادوں پر ہی خلیج وسیع نہیں ہو رہی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں امیر و غریب کے درمیان فرق و امتیاز بڑھ رہا ہے پاکستان میں غریب آبادیوں کے جنگل اُگے ہیں جن میں پانی گیس بجلی اور نکاسی آب کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ غریب بستیوں کے صحرا میں پوش اور جدید بستیوں کے نخلستان وجود میں آ گئے ہیں ملک کے مقتدر ادارے بھی ہاؤ سنگ سیکٹر بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
پاکستان کے عوام کی بد قسمتی ہے ہر صاحب اختیار اپنے لیے مال و دولت جمع کرنے میں مصروف ہے اور لالچ اور ہوس کی سب حدوں کو عبور کر لیتے ہیں‘ اپنے لیے پلاٹوں کی بندر بانٹ کو قانونی جواز فراہم کرلیتے ہیں۔ معاشرے کے سبھی بااثر طبقات اور اداروں کے سربراہ قانون کی نزاکتوں سے استفادہ کرتے ہوئے سرکاری زمینوں پر قابض ہونا اپنا خصوصی استحقاق سمجھتے ہیں۔انقلابی اور تبدیلی کے مدعی وزیراعظم سے غریب عوام کی استدعا ہے ملک کی اشرافیہ جس میں نوکر شاہی بھی شامل ہے کے کل پرزوں پر سرکاری پلاٹ حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔جس طرح عوامی نمائندوں پر پلاٹ حاصل کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ملک بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر جو بڑی بڑی افسران کی عالی شان رہائش گاہیں ہیں ان کو فی الفور ختم کرکے چھوٹے ملازمین کیلئے سرکاری رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔ بڑی رہائش گاہیں عمومی طور افسران کے دماغوں کو رعونت سے بھر دیتی ہیں وہ خدمت گار بننے کی بجائے اپنے آپ کو حکمران سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دستور پاکستان نے وزیر اعظم کو پانچ ایڈوائزر مقرر کرنے کی اجازت دی ہے یہ اجازت بھی مشروط ہے اگر وزیر اعظم کو کسی ماہر کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی اور تقرری کے بغیر قومی کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس نقصان سے بچنے کیلئے وزیراعظم کو نا گزیر حالات میں مشیر مقرر کرنیکی اجازت ہے اسلامی تاریخ کے ماہر سیاسی فلسفی علامہ ابن خلدون نے مشیروں کی تقرری کے اصول بیان کیے ہیں۔
مشیروں کے سیاسی اور معاشی مفادات مشورہ لینے والے سے وابستہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اب مشیران عالی صفات کا کام صرف یہ ہے کہ وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی نوکری پکی کرنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ مشیروں کو کام ہے کسی ویب سائٹ کا سکرین شارٹ لیکر اس کو قوم کے سامنے خوشخبری بنا پیش کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو ایسی بے بنیاد خوشخبریاں سامنے آنے کے بعد کسی قابل اعتماد ادارے سے تصدیق کروا لینی چاہیے۔ اگر حکومت پاکستان نے مہنگائی اور قیمتوں کا موازنہ دوسرے ممالک سے کرنا ہے تو لوگوں کی آمدن اور معیار زندگی کا موازنہ بھی عالمی معیار کے مطابق کیا جانا چاہئے ادھورا سچ ہمیشہ مغالطے اور غلط بیانی کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے ترنگ میں آکر اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ مہنگائی تو ترقی کی علامت ہوتی ہے مہنگائی سے سرسبز و شاداب جنت نظیر ہوائیں چلتی ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی عادت تھی وہ ہمیشہ ملکی معاشی حالات کی ترقی کے پیمانے کو گاڑیوں اور موبائلوں کی خرید سے وابستہ کرتے تھے۔ لگتا ہے اس سے متاثر ہونے والے کئی فنکار میدان میں آ گئے ہیں۔ وہ معاشی ترقی کے پیمانے کو گاڑیوں کی خریدو فروخت سے وابستہ کر دیتے ہیں۔عوام کی قوت خرید بہت حد تک متاثر ہوئی ہے عام ضروریات زندگی اس کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ آٹا چینی گھی ادویات گیس بجلی کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں‘ جب تک بنیادی ضروریات زندگی انسانی پہنچ میں نہیں آ جاتی غریب آدمیوں کی زندگی اجیرن رہے گی۔ مہنگائی کی بدولت معیار زندگی کم سے کم ہوتا رہے گا‘مہنگائی کے علاوہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کو خون نچوڑا جاتا ہے۔سرکاری ٹیکس آمدنی کا بڑاذریعہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوتے ہیں‘ جن کے منفی اثرات امیروں کی بجائے غریبوں پر زیادہ پڑتے ہیں۔یہاں حکومتوں وعدوں اور دعوؤں اورعوام کے ووٹوں کے حوالے سے ایک لطیفہ بے طرح یاد آرہاہے جو کچھ یوں ہے۔ایک لطیفے سنانے والاایک بادشاہ کے دربار میں لطیفے سنا رہا تھا بادشاہ سلامت خوش ہو کر انعامات کا اعلان کر رہے تھے۔ لطیفے سنانے والے نے اختتام محفل پرجب بادشاہ سے انعام طلب کیا توبادشاہ سلامت نے بھی کہا کہ آپ نے لطیفے سنا کر مجھ کو خوش کردیا اور میں نے انعامات کا اعلان کرکے آپ کو خوش کردیا لہٰذا حساب برابر ہو گیا ہے۔بالکل اسی طرح حکومت مہنگائی کم کرنے کا اعلان کرکے لوگوں کو خوش کر دیتی ہے اور لوگ بھی آئندہ ووٹوں کا عمران خان کے حق میں اعلان کر کے عمران خان کو خوش کر دیں گے۔اس سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوگا۔ اللہ نہ کرے۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain