تازہ تر ین

سفید شور اور اہل علم و فن

عابد کمالوی
کرونا وبا نے جہاں عالمی معیشت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا وہاں دنیا بھر کے لوگوں کی سماجی،ثقافتی، صنعتی،زرعی، کاروباری، مذہبی اور دوسری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔،یہی نہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والا ادب بھی اس کے زیر اثر آیا۔ ادبی سرگرمیاں کافی حد تک تعطل کا شکار ہوگئیں۔
جہاں اردو ادب کے فروغ میں افسانوں، سفرناموں شاعری اور دوسرے موضوعات پرکتب کی اشاعت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، وہاں مشاعروں تنقیدی اور مذاکراتی ادبی محافل کا انعقاد بھی ادب کے فروغ میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔
کرو ناپوری دنیا کو بھوت کی طرح چمٹا ہوا ہے اور ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اس بھوت کے اثرات جب دواؤں اور دعاؤں کی بدولت کم ہوتے ہیں تو مختلف سماجی سرگرمیاں بھی زور و شور سے شروع ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں تھا۔ اسلام آبادی دوستوں کا حال احوال جاننے کے لیے برادر گرامی مرتبت محمد نعیم جاوید سے بات ہوئی تو انہوں نے” کہا کہ باقی سب خیریت ہے کرونا سے بہت نمٹ لیا۔ کل ساڑھے گیارہ بجے دن گھر پر ایک ادبی بیٹھک میں دس بارہ احباب کو بلایا ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔ ”
موسم ساون اور ہوا کی وجہ سے کچھ خوشگوار سا ہو گیا تھا۔ سواں گارڈن میں برادرم نعیم جاوید محو انتظار تھے۔
دوست آچکے تھے۔درجن بھر شعرائے کرام مدعو ہوں اور مشاعرہ برپا نہ ہو۔سوا بارہ بچے ہمارے پہنچتے ہی صاحب خانہ نے کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی۔ نقیب محفل نے ہماری اور قیوم طاہر کی صدارت اور بریگیڈیئر اویس ضمیر اور دوسرے دو اور دوستوں کو مہمان اعزاز کا اعزاز بخشنے کے بعد مشاعرے کا آغاز کر دیا۔
تقریباً ڈھائی گھنٹوں پر محیط اس نشست میں کرونا کی وجہ سے تنقیدی ادبی اور مشاعراتی محفلوں سے مہینوں دور رہنے کی وجہ سے حاضر شعرائے کرام نے جی بھر کے اپنا کلام سنایا۔جبکہ نقیب محفل ہر صاحب فکر و خیال کو دعوت سخن دینے سے پیشتر اپنے دو یا تین اشعار اس کی نذرکرتے رہے۔
لذت کام و دہن کے بعد محفل کا اختتام دعا پر ہوا۔ دعا صاحب خانہ نے کرائی۔ ان کی خوشی دیدنی تھی جبھی تو دوسرے روز ز انہوں نے اس محفل کا ذکر کچھ یوں کیا”
بروز اتوار غریب خانے پر ایک ” اجتماعِ یاراں ” ہوا اور دوستوں نے اپنے اپنے خوبصورت کلام سے نوازا. جن دوستوں نے اس اجتماع میں شرکت کی ان کے نام یہ ہیں
محترم قیوم طاہر صاحب، محترم عابد کمالوی صاحب، محترم برگیڈیر اویس ضمیر صاحب، محترم علی عارف صاحب، محترم انصر حسن صاحب، محترم پروفیسر صداقت طاہر صاحب، محترم نصرت یاب خان نصرت صاحب، محترم محمد زبیر صاحب، محترم خالد سعید صاحب محترم سلطان حرفی صاحب، محترم محمد رفاقت صاحب، محترم عبدالماجد عادل صاحب اور محترم معراج مجتبیٰ صاحب۔اس خوبصورت پروگرام کی نظامت محترم نصرت یاب خان نصرت نے فرمائی”
قارئین!شاعری یا نثر کی نئی آنے والی کتاب کا نام رکھنا کسی نو مولود کا نام رکھنے سے بھی اس لئے مشکل ہے کہ اکثر بچوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں لیکن اگر آپ نے اپنی کتاب کا وہ نام اگر کسی شاعری یا نثر کی کتاب کے نام پرجو پہلے سے موجود ہے رکھ لیا تو اس میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں چربہ سازی یا کاپی رائٹ سر فہرست ہیں۔
بریگیڈیئر اویس ضمیر کے سراپا کو شعر و ادب کے حوالے سے غور سے دیکھیں تو ان کی آنکھیں یہ سوال کر رہی ہوتی ہیں ع
اس طرح مجھے غور سے کیوں دیکھ رہے ہو
کیا تم نے کبھی پہلے سمندر نہیں دیکھا
اپنی شاعری کے مجموعے”سفید شور” کا نام رکھتے وقت ان کے ذہن و دل کس قسم کے شور اور تصورات سے نبرد آزما ہوئے ہوں گے ہمیں معلوم نہیں، لیکن بہت سا شور ایسا بھی ہے جن کی آواز نہیں ہوتی بلکہ ان کا تعلق صرف محسوسات سے ہوتا ہے۔ اویس ضمیر کی شاعری بھی ایسے محسوسات کی شاعری ہے۔ جس طرح جذبوں اور محسوسات کا شوروغل انسان کے اندر داخل ہو کر شوریدہ سری کا سامان پیدا کر دیتا ہے بالکل اسی طرح اویس کی شاعری جذبوں میں کھلبلی مچا دیتی ہے۔
کتاب کا نام سمجھنے سے لے کر اویس کی شاعری کے حرف اول سے آخر تک ایک ایک لفظ کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ گیان اور دھیان کی ضرورت ہے۔
اویس ضمیر ایک مختلف اور منفرد ڈکشن لے کر شعری کائنات میں داخل ہوئے ہیں۔ عباس تابش لکھتا ہے۔
“جہاں تک ان کی غزلوں اور نظموں کے موضوعات کا تعلق ہے ان میں ان کے وجودی مسائل کے ساتھ ساتھ سائنسی شعور پوری توانائی سے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یقینا” یہ وہ شاعری ہے جسے بسر کرنے کے لئے ایک خواندگی کم پڑتی ہے۔ میرے نزدیک اویس ضمیر کا یہ مجموعہ کلام جدید شاعری میں ایک عمدہ اضافہ ہے” متعدد مقامات پر اویس اپنی شاعری پڑھنے والے عام قاری کے لیے مشکلات پیدا کر دیتے ہیں لیکن اکثر اوقات وہ ایسا ابلاغ اور اپنائیت پیدا کرتے ہیں کہ وہی قاری ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔
نہ آج خود کو سنبھالو اگر مری مانو
مجھے گلے سے لگا لو اگر مری مانو
بہت نشاط فزا رقص کی ہے یہ شب
مزاج تم بھی بنا لو اگر مری مانو
مرے قلم میں سیاہی ہے روشنائی نہیں
حروف اپنے مٹالو اگر مری مانو
میرا تعلق ابلاغیات کی دنیا سے رہا ہے جبکہ اویس مسلح افوج کے ایک ذمہ دار آفیسر ہیں۔ ہم بول کر چلے جاتے ہیں اور وہ لکھ کر خود کو منوا لیتے ہیں۔
پھر بھی دونوں کسی نہ کسی شکل میں ابلاغ ہی کر رہے ہیں۔
انداز سخن ملاحظہ ہو
کام کا کوئی بھی نہ کام ہوا
کار بیکار صبح و شام ہوا
جو ادھورا تھا میرا جملہئ زیست
ایک نقطے سے بس تمام ہوا
برگیڈیئر محمد صدیق سالک‘کرنل دلنواز، برگیڈیئر صولت رضا‘ضمیر جعفری اور دوسرے بے شمار ایسے نام ہیں جنہوں نے عسکری کارناموں کے ساتھ ساتھ ساتھ ادبی معرکوں میں بھی نام پیدا کیا ہے۔ برگیڈئر اویس سفید شور لے کر حریم شعرمیں داخل ہوئے ہیں بہت جلد اپنے منفرد انداز بیان کی بدولت وہ جدید لہجے کے شاعروں کی صف میں نمایاں نظر آئیں گے۔
(کالم نگار قومی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain