وزیر احمد جوگیزئی
انگریز بر صغیر سے جاتے جاتے ہندوستان کو تقسیم تو کر گئے لیکن نئے بننے والے دونوں آزاد ممالک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کا قضیہ ضرور چھوڑ گئے۔اس مسئلہ کے باعث دنوں ملکوں کی گزشتہ 74سالوں سے اسی مسئلہ کی بنیاد پردشمنی آج تک چلی آرہی ہے دونوں ملکوں نے تین جنگیں لڑیں اور خطے کا امن تباہ ہو گیا۔اور کم از کم پاکستان اور کشمیر میں جمہوریت بھی اس لڑائی کے باعث اس جگہ تک نہ پہنچ سکی جس تک اسے پہنچنا چاہیے تھا۔دوسرے الفاظ میں جمہوریت پاکستان میں عروج حاصل نہ کر سکی جو کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔میں اس جمہوریت کی بات کر رہا ہوں جس کا اشارہ علامہ اقبا ل نے اپنے خطابات میں اور اپنے مضا مین میں کیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت وہ آئیگی جو کہ مسلم دنیا کے چہرے پر آمرانہ دور کے لگے ہوئے داغ ہٹا دے گی۔لیکن بد قسمتی سے نہ تو ہم ملک میں وہ جمہوریت لا سکے جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے کی تھی اور نہ ہی عالمی سطح پر درست انداز میں کشمیریوں کی نمائندگی کر سکے اور نہ ہی ان کی آواز بن سکے۔
حال ہی میں آزاد جموں کشمیر میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ان انتخابات میں اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں کسی نے مقبوضہ کشمیر کے دکھ کی بات نہیں کی بلکہ پاکستا ن کی سیاست کوکشمیر پہنچا دیا گیا جو کہ کشمیر کے مفاد کے حق میں نہیں ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان انتخابات میں سیاسی مہم کا مرکز ہو تا ہی کشمیر کو درپیش مسئلہ کا حل ہو تا۔اس حوالے سے کوئی علاج کوئی تجاویز پیش کی جاتیں،لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا،ان انتخابات میں پیپلز پا رٹی کا اپنا بیانیہ تھا۔مسلم لیگ ن کا اپنا بیانیہ تھا اور پاکستان تحریک انصاف کا تو انداز ہی نرالہ تھا۔ان تینوں آوازوں میں اور ان تینوں جماعتوں کے جلسوں میں پاکستان کی سیاست تو نمایاں تھی لیکن کشمیر کا مسئلہ غائب تھا اور ان جلسوں میں کشمیر کے مسئلہ کے حل کے حوالے سے نہ تو کوئی بات چیت کی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پروگرام مرتب کیا گیا۔اگر واقعی کشمیر کازسے ہماری سیاسی جماعتیں ہمدردی رکھتی ہیں تو انہیں وہاں پر اپنے مسائل سے باہر نکل کر کشمیریوں کے ساتھ مل کر یک آواز ہو کر کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے بات کرنی چاہیے تھی اور اس آواز پر کشمیر کے الیکشن لڑے جانے چاہئیں تھے میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آزاد جموں کشمیر کا ایک اپنا سیاسی ایجنڈا ہونا چاہیے جو کہ خالصتا ً کشمیری ہو،اور کشمیر یوں کی جانب سے مرتب کیا جائے۔یہ ماننا پڑے گا کہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے میدان میں اتارے گئے تمام امید وار کشمیری ہی تھے اور کشمیر کے پرانے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ کئی نوجوان اور نئے چہرے بھی سیاسی میدان میں اترے لیکن یہ امید وار کشمیریوں کے لیے مسلم کانفرنس یا اس جیسی آواز نہیں بن سکتے ہیں۔ مسلم کانفرنس کشمیر کی اپنی جماعت تھی جس کو کہ حقیقی طور پر کشمیر کی نمائندہ جماعت کہا جاتا تھا اور یہ جماعت انتخابی میدان میں کشمیر کی آواز اور کشمیر کا پروگرام لے کر اترتی تھی لیکن آہستہ آہستہ پاکستان کی سیاست حاوی ہو تی گئی پیپلز پا رٹی یا ن لیگ کی آوازیں یا پھر پاکستان تحریک انصاف کا انداز کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل کا مداوا نہیں کر سکتا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جب بھی کشمیر میں الیکشن ہو ئے ہیں لا محالہ اسلام آباد ان انتخابات پر اثر انداز ہو تا آیا ہے اور مظفر آباد میں اسلام آباد کی پسند کی حکومتیں بر سر اقتدار آتی رہی ہیں۔کشمیر میں الیکشن قومی انتخابات کے ساتھ ہی منعقد کروانا چاہیے تاکہ کشمیر میں جو بھی حکومت بنے وہ حکومت اسلام آباد کی حکومت کے ساتھ ہی اپنے پانچ سال پورے کرے۔یہ بات تو طے ہے کہ جنگ و جدل کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکالا جاسکتا ہے،اور نہ ہی آج تک نکلا ہے پاکستان اور بھارت نے اس مسئلہ پر تین جنگیں لڑیں ہیں لیکن سوائے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے وعلاوہ اور کچھ نہیں کر سکیں ہیں۔اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک بہت ہی بہترین سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اس کا ایک موقع اس خطے اور دنیا کو مل رہا ہے اور وہ موقع افغانستان میں طالبان کی دورباہ آمد ہے۔
طالبان پہلے بھی افغانستان اور دنیا میں ایک اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔اور اس مرتبہ تو حالات پہلے کی نسبت بہت مختلف ہیں۔ان کو پہلے سے کہیں زیادہ بین الا اقوامی تائید بھی حاصل ہے۔ہمیں افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں خطے کے تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ تمام ممالک کو ساتھ لے کر افغانستان کے امن اور ترقی کے لیے چلنے کی ضرورت ہے۔اور اس عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے،ایران،روس اور چین کا بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ہو گا۔اور اگر تمام علاقائی ممالک ایک علاقائی اپروچ کے ساتھ چلیں تو عین ممکن ہے کہ افغانستان کے علاوہ کشمیر کے مسئلہ کا بھی کوئی حل بات چیت کے ذریعے نکالا جاسکے۔یقینا ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا۔اور اگر اس دل میں سکون ہو گا تو ہی ایشیا میں بھی سکون ہو گا۔اور اگر افغانستان میں امن کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر کام کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ جو اس خطے میں مشکل حالات پیدا ہو ئے ہیں ان کا کو ئی دیر پا حل نکل آئے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭