تازہ تر ین

شیرکی آنکھ کاپانی خشک ہوگیا

شفقت حسین
ایک انگریزی محاورہ ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:”انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف سے انکار کے ہم معنی ہے“۔ اس سے ارتقا کا عمل رک جاتاہے‘معاشرے میں مایوسی اوربددلی بھی پھیلتی ہے لیکن جرم ثابت ہونے پرکسی مجرم کو سزا کے عمل سے گزار کرنہ صرف دوسرے لوگوں تک ایک واضح پیغام پہنچ جاتاہے بلکہ مستقبل میں ناپسندیدہ سمجھے جانے والے اعمال اور افعال کے اعادے کو بڑی حد تک روکنے میں مدد بھی مل سکتی ہے اور ویسے بھی اسلام نے تومختلف جرائم کے ارتکاب کی سزاؤں تک کا تعین قیام قیامت تک کے لئے کر رکھا ہے۔
میں ذیل میں اپنی معروضات پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجرم چاہے نورمقدم کاقاتل ظاہر جعفر ہو یا سیالکوٹ موٹروے پر ایک بہن کے ساتھ شرمناک سلوک کے مرتکب عابد ملہی یا اس کے ساتھی ہوں یا پھر14اگست کے روز مینار پاکستان کے سائے تلے عائشہ نامی ٹک ٹاکر سے دست درازی کرنے والے تین چار سو کے قریب ناہنجار ہوں تمام کے تمام لوگ سخت ترین سزاؤں کے مستحق ہیں اور اس حوالے سے مائیں بہنیں اور بہوبیٹیاں رکھنے والے کسی بھی فر د کے دل میں معاشرے کے ایسے ناسوروں کے لئے کوئی ہمدردی اور کوئی جذبہئ ترحم قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن قارئین کرام! کچھ اشکالات بعض استفارات اور چند سوالات ایسے ضرور ہیں جو ہر باپ اوربھائی کے ذہن میں ابھر ابھر کرسامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خود میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن تلاش کرنے کی کوشش کرے تو اسے بآسانی اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری ماؤں‘بہنوں‘بہوؤں اور بیٹیوں کے ساتھ ”مردِآہن“”الاماشااللہ“ کی جانب سے کمینگی پر مبنی کیے جانے والے ایسے سلوک کو سن کرپڑھ کرنہ صرف دل دکھی اور ملول ہو جاتاہے بلکہ میری اکثر راتیں خلاؤں کو گھورتے گزر جاتی ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ نورمقدم جب ماں باپ کی دہلیز کوعبور کرکے ظاہر جعفر کے پاس جاتی تھی تو اس کے راستے میں دیوار کیوں کھڑی نہیں کی جاتی تھی۔ نیز یہ بھی کہ جب دونوں بچے اس قدر گہرے طورپر ایک دوسرے میں انوالو تھے تو انہیں نکاح جیسے عظیم اورخوبصورت بندھن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیوں نہ باندھ دیاگیا جو ان کا اسلامی‘شرعی‘ قانونی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور سماجی حق تھا۔ والدین کو نظر انداز کرنے کا یا والدین کانور مقدم کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی مرضی ومنشا کے تحت گئی اور جاتے ہی ایک شقی القلب درندے کی مرضی ومنشا کی بھینٹ چڑھ گئی اور اس موقع نے ایسی گرد اڑائی‘ایسی دُھول اٹھی کہ نور مقدم کے اہل خانہ معاشرے کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے۔
اسی طرح سیالکوٹ موٹروے پر رات کی تاریکی میں اپنے تین کمسن بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خاتون کا معاملہ ہے جسے چلتے وقت گھر کے کسی بڑے نے یہ نہ سمجھایا کہ رات کے وقت اکیلی خاتون کا سفرکرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ رک جائیے یوں بھی کسی تن تنہا ڈرائیو کرنے والے پرنیند بھی غالب آسکتی ہے اس دوران کسی حادثے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا‘نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
یہی صورت واقعہ جشن آزادی کے موقع پر عائشہ کے ساتھ پیش آنے والا افسوسناک سانحہ ہے اسے بھی گھر سے ایک ہجوم میں جہاں چہارسوہلڑ بازی ہورہی تھی جانے سے کسی نہ روکا۔ گھر کے کسی بڑے اور سیانے نے یہ نہ کہا کہ ٹاک ٹاک کاشوق کسی اوروقت پر اٹھا رکھو لیکن عوام کے ایک جم غفیر میں نہ جاؤ۔اسی طرح آج سے پورے ساڑھے پانچ ماہ پیچھے آٹھ مارچ کے روز عالمی یوم خواتین منانے والی الٹراماڈرن بچیوں اور عورتوں کو والدین اور عزیزو اقارب نے یہ نہیں سمجھایا کہ بیٹیو! اللہ پاک نے آپ کا مقام بہت بلند‘ بڑا ارفعٰ اور اعلیٰ رکھا ہے اور تمہارے جسم پر تمہاری مرضیاں نہیں چل سکتیں کہ آپ کا سراپا کسی کی امانت ہے اور حکم خداوندی ماسوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ امانتیں ان کے اہل اور حقداروں کے سپرد کرو نہ کہ سرراہ چلتے کسی اوباش کے حوالے کردو۔ یہی نہیں بلکہ خداوند تعالیٰ نے تو آپ کے حدودوقیود تک مقرر کررکھے ہیں کہ کہاں تک آپ نے اپنے آپ کوظاہر کرناہے اور کہاں تک چھپانا ہے اسی خدائے بزرگ وبرتر نے اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ میں تمہاری آنکھوں کی خیانت کابھی علم رکھتا ہوں بلکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہواہے میں اس سے بھی واقف ہوں جس کامطلب جوہری طورپر یہی ہے کہ سرراہ سڑک پر چلتے چلتے کسیAttractکرنے والی چیز پر غیر ارادی طورپر نظر کا اٹھنا تو قابل معافی ہے مگر باقاعدہ ارادۃً تعاقب کرکے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا گناہ کبیر ہے۔ کسی نے ان ماڈرن خواتین کو یہ نہیں بتایا کہ اسلام نے آپ کو اپنے لئے انتخاب کا حق تو عطا کیاہے لیکن اس کے لئے نکاح اور گواہ بھی ضروری ہے اور ایجاب وقبول بھی۔ دین محمدیؐ نے تو عورت کو اس قدر مضبوط اور طاقتور بنا رکھاہے کہ بعض شرائط کو پورا کیے بغیر مرد حضرات طلاق دے بھی دیں تو وہ مؤثر نہیں سمجھی جاتی لیکن کیا کیاجائے کہ ہم نے قرآن پاک کو یا قسم اٹھانے کے لئے یا پھر خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر گھر کی کسی اونچی جگہ پر باعث برکت سمجھ کر رکھاہوتاہے لیکن نعمتوں‘ برکتوں‘ گرانقدر رحمتوں اور ہدایتوں کایہ منبع وذخیرہ بلکہ اس میں شفابھی ہے لیکن اسے کبھی باعثِ مقصد نہیں سمجھا کہ آج کے والدین اپنی اپنی اولاد سے ایک خاص مفہوم میں غافل ہو چکے معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگ اس امرکے گواہ ہیں جو اپنے آبأ سے اکثر سنا کرتے تھے کہ ان کے بڑے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کھلاؤ تو سونے کا نوالا مگر دیکھو اسے شیر کی آنکھ سے۔ اس کا مطلب ہے کہ اولاد کے ساتھ نرمی بھی کرو لیکن جہاں اس کے گمراہ ہونے کاخطرہ وخدشہ ہو وہاں سختی کرنابھی ضروری ہے۔
الحمدللہ! جن والدین نے اس ابدی صداقت اور جوہری حقیقت کو سمجھا و ہ سرخرو ٹھہرے اور جو نہ سمجھے ان کی اولادیں ان کے لئے روگ بن گئیں۔کیا ملالہ یوسفزئی کے والد نے اس مغرب زدہ ہو جانے والی بیٹی کی سرزنش کی کہ ملالہ! کسی مرد کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارنا اسلام میں حرام ہے اور اس کے لئے نکاح ایک لازمی شرط ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی ملالہ ہے جس پر غالباً2013ء میں سکول جاتے ہوئے حملہ ہوا تو پورا ملک اس واقعہ کے ملزمان کے خلاف سراپااحتجاج بن گیا تھا خود راقم نے بھی ”خبریں“ میں اس کے حق میں ایک تفصیلی کالم لکھا تھا لیکن یہ بچی بھی گمراہ ہونے سے نہ بچ سکی جو آج کہہ رہی ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں اور یہودیوں کے ساتھ کھلے عام تصویریں بنوا کر انہیں اپ لوڈ کررہی ہے۔ بہرحال خواتین کے ساتھ گھناؤنے اورشرمناک سلوک کے ملزمان کو کڑی اور سخت سزائیں بھی دیں۔ لیکن خدارا! والدین اپنی بچیوں پر نظر بھی رکھیں۔آج ہمارے گھروں میں سونے کے نوالے تو ہیں انواع واقسام کی ڈشز اور کھانے ہیں لیکن نہ جانے شیر کی آنکھ کاپانی خشک ہو چکا ہے یا اس کی بینائی چلی گئی ہے۔ واللہ علم الصّواب۔
طُرفہ تماشا اورستم بالائے ستم یہ کہ اسمبلیوں میں خواتین ایم پی ایزکوکوئی سویٹ ڈش کہتا ہے تب بھی کوئی نہیں بولتا اسی طرح ہماری بہو‘بیٹیاں مردوں پر قابل اعتراض اشیا سے بھرے پیکٹس پھینکتی ہیں تو تب بھی کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ دونوں طرف سے شرم اور حیا کا جنازہ نکالا جارہا ہے اوریہ شیطانی چکر ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لیتا۔ اگر میں غلط نہیں تو کیا یہ سچ نہیں کہ حریم شاہ اور عائشہ اوردیگر بہت سی معروف ہو جانے والی خواتین کی شرمناک ویڈیوز نیٹ پر موجود ہیں لیکن کیا والدین نے نوٹس لیا۔ سب کچھ ان کے علم میں ہونے کے باوجود خاموشی چہ معنی دارد؟
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain