تازہ تر ین

جذباتیت اورضد

کرنل (ر) عادل اختر
ہمارے ہاں پڑوس میں گزشتہ چالیس برس سے قیامت برپا ہے۔ افغانستان میں جنگ بھی چل رہی ہے، خانہ جنگی بھی۔ وَقِنا ربّنا عذابُ الُنارہ۔ اس غارت گری کی ذمہ دار دو مہذب سپر پاورز ہیں یعنی روس اور امریکہ۔ افغانستان سے روس نکلا تو امریکہ چڑھ دوڑا۔ جنگ میں بہادری کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن صحیح فیصلوں کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ افغانستان کی سرزمین دفاعی جنگ کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس پر افغانوں کی سخت جانی مستزاد ہے۔ دو سپر پاورز کے ساتھ چالیس سال تک لڑنے کا حوصلہ صرف افغانوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر جنگ مزید سو سال تک چلتی رہتی تو افغان ہار نہ مانتے اور سو سال تک لڑتے رہتے۔ چار کروڑ آبادی کا ملک برباد ہو کے رہ گیا۔ پچاس لاکھ ہجرت کرگئے، پچیس لاکھ وطن میں بے گھر ہو گئے۔ پندرہ لاکھ مقتول و معذور ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، سپر پاورز کا کیا بگڑا۔
1979ء میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو بڑے بڑے پاکستانی عاقلوں کا خوف کے مارے بُرا حال ہو گیا۔ اب روسی فوجی پنڈی اور پشاور میں دندناتے نظر آئیں گے۔ پاکستان سپر پاور کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے۔ مگر پاکستان نے سپر پاور کے مقابلے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھڑے بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا نہ مناسب، غیبی امداد بھی آ گئی۔ افغانستان میدان جنگ بن گیا۔ روسی فوجی، نکمے اور نااہل ثابت ہوئے، ان کی دلچسپی لڑنے میں نہ تھی۔ سیکس، شراب اور افیم میں تھی۔ ان کی برتری فضا میں تھی۔ ہر طرف ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر بم برسا رہے تھے۔ ٹینک اور توپیں بھی آگ اُگل رہی تھیں۔ کچھ دن کے بعد امریکی میزائل اسٹنگر بھی آ گئے۔ انہوں نے تاک تاک کر روسی جہازوں اور توپوں کو نشانہ بنایا۔ افغانستان کے کوہ ودمن اور ویرانے روسی جہازوں اور ٹینکوں کا قبرستان بن گئے۔
ادھر روس کی سیاسی قیادت میں اختلافات بڑھ گئے۔ جنگ کے بڑے حامی صدر بربژنیف انتقال کر گئے۔ چند سال کے بعد اقتدار گورباچوف کے ہاتھ میں آ گیا۔ نئی لیڈرشپ پر جنگ کی لامعنویت واضح ہو چلی تھی۔ بے حسنب خرچہ ہو رہا تھا اور فائدہ کوئی نہ تھا۔ روس نے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا، فوج واس چلی گئی تو افغان آمر نجیب اللہ صدارتی محل سے فرار ہو گیا، لیکن پکڑا گیا اور پھانسی چڑھایا گیا۔ افغانستان کے ہر حکمران کا یہی حال ہوتا آیا ہے۔ جنازہ اٹھتا ہے، مزار بنتا ہے۔ مجاہدین نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے اسلحہ واپس لینا شروع کر دیا۔ منشیات ختم کر دیں، ملک میں امن قائم کر دیا لیکن امریکیوں کو اسلامی حکومت کا برسراقتدار آنا پسند نہ آیا۔ جمہوریت کے چمپئن نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ مشہور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل لکھتی ہیں کہ مغربیوں کے دل میں صدیوں سے اسلام کے خلاف نفرت بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ اسی نفرت کا نتیجہ تھا۔
روس نے حملہ کرتے وقت بڑے بہانے گھڑے تھے۔ امریکہ نے اس سے بھی زیادہ دلکش بہانے گھڑ لئے۔ یہ اسامہ بن لادن کیوں چھپا بیٹھا ہے، اسے واپس کرو۔ اگر اسامہ لادن کا بہانہ نہ ملتا تو کوئی اور بہانہ گھڑ لیتے۔ یہ تو وہی روایتی بھیڑ اور بھیڑیئے کا قصہ تھا یعنی بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیابان ہوتا۔
امریکہ کو ضرورت تھی ایک ایسے ٹھکانے کی جہاں بیٹھ کر وہ چین، روس، ایران اور پاکستان پر نظر رکھ سکے۔ وسط ایشیا کی سرزمین میں معدنیات کے چھپے ہوئے خزانوں کی تصدیق یا تردید کر سکے۔ ایک ایسے میدان جنگ کی جہاں وہ اپنے جدید ہتھیاروں کی آزمائش کر سکے۔ افغانستان ایک لاوارث ملک تھا۔ امریکہ اس سے پہلے بھی کئی لاوارث ملکوں کو ریپ کر چکا تھا۔ جاپان، کوریا، ویت نام، عراق…… امریکہ کے نزدیک ایک لاوارث ملک کو ریپ کرنا، نہ بڑی بات تھی، نہ بُری بات۔ امریکہ میں اتنی ہمت کبھی نہ ہوئی کہ وہ روس یا چین پر حملہ کرتا کیونکہ یہ لاوارث ملک نہیں تھے۔
افغان فوج کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ کہی جاتی ہے یہ تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس فوج کی ٹریننگ اور ہتھیاروں پر دو ہزار ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔ یہ جاننے کے لئے کہ دو ہزار ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لیجئے کہ پاکستان اپنی چھ لاکھ فوج پر ایک سال میں صرف آٹھ ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ بھارت اپنی تیرہ لاکھ فوج پر ایک سال میں پچاس ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اگر پاکستانی فوج کو جدید اسلحہ خریدنے کے لئے دو ہزار ارب ڈالر مل جائیں تو دشمن پر سکتہ طاری ہو جائے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ ڈالر خرچنے سے ہر کام ہو سکتا ہے۔ افغانوں کے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے تھے، وہ اسلحہ سمیت طالبان سے جا ملتے تھے۔
جنگ کے دوران امریکہ نے ہزاروں بے ضمیر افغانوں کو خرید کر رکھا تھا جو امریکہ کے لئے جاسوسی کرتے تھے۔ دفتروں میں کام کرنے والے کلرک اور افسر…… ہوٹلوں میں کام کرنے والے، بھیڑ بکریاں چرانے والے…… افغان امراء نے بھی افغانستان سے باہر اپنے بنک بیلنس اور ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ اب یہ بھاگ بھاگ کر ان ممالک میں پناہ لینے چلے جائیں گے، سب سے بڑا ضمیر فروش اشرف غنی نکلا جو سنا ہے 169 ملین ڈالر سمیٹ کر عرب امارات چلا گیا ہے۔
افغان جنگ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے ملک کو لاوارث نہ بننے دیں۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا ہوتا تو بھارت اب تک لاہور اور کراچی میں اپنے قدم جما چکا ہوتا۔ ہم اس تھوڑی سی آزادی سے جو ہمیں حاصل ہے، محروم ہو گئے ہوتے۔ سلام ان لوگوں پر جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ اللہ تعالیٰ‘اس کے فرشتوں اور بائیس کروڑ عوام کی لعنت ہوان پر جنہوں نے پاکستان کو لوٹا۔ اکثر دانشور اشاروں اشاروں میں کہتے ہیں کہ بھٹو اور ضیاء الحق کو ایٹم بم بنانے کی پاداش میں غیر ملکی طاقتوں نے مروایا ہے۔ اس چالاکی سے کہ ان کے دامن پر خون کا کوئی دھبہ نہیں لگنے پایا۔ طالبان کی حکومت آنے پر امریکہ اور بھارت کیا کریں گے۔ نئی سازشیں کریں گے، اب تک جنگ کے بیسیوں نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں، انہیں آزمائیں کہ جنگ کے نئے طریقوں میں فوجیں اور ٹینک بھیجنے کی ضرورت نہیں رہتی، نفسیاتی طریقے، دھماکے، فسادات، اختلافات کو ہوا دینا۔ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مقروض ملک بنایا۔ پاکستان اور دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا، سائبر وار، بھارت کا ایک ہی مقصد ہے۔ پاکستان کو ایک لاوارث ملک بنانا، بے ضمیر لوگوں کو خریدنے کے لئے امریکہ کے پاس ڈالروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
افغانوں میں ایک عجیب معاشرتی برائی ہے۔ وہ بیک وقت اپنے کزن کے ساتھ، محبت اور نفرت کر لیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دو کزن ہیں، افغانوں کے مزاج میں قرار نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے محبت دکھانے اور ناراض ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ بات بات پر روٹھا کریں گے۔ ذرا سی دیر میں بگڑجائیں گے۔ پاکستان میں ریاست مدینہ بن سکتی ہے۔ افغانستان میں نہیں بن سکتی۔ افغانستان میں سینکڑوں وار لارڈز ہیں۔ یہ وار لارڈز بڑے مشتعل مزاج ہیں۔ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ جمہوریت اور رواداری افغانوں کے مزاج میں ہے ہی نہیں، جو افغان امریکی ڈالروں پر پل رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے اور طالبان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملات امریکہ اور کینیڈا کی طرح نہیں ہو پائیں گے۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain