تازہ تر ین

جنوبی پنجاب کے سیاست دان اور عثمان بزدار

نیاز حسین لکھویرا
پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت تھا قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا،مجھ سمیت کچھ دوست اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن کے چیمبر میں بیٹھے تھے کہ ان ڈور ساونڈ سسٹم پرنو ابزادہ نصر اللہ کی تقریر شروع ہوئی۔ اعتزاز احسن فوراً یہ کہہ کر ایوان کی طرف بھاگے کہ نوابزادہ صاحب کی تقریر مس نہیں کی جا سکتی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے انتہائی منفرد سیاستدان اور مدلل گفتگو کرنے والے مقرر تھے۔ ان کی تمام عمر جمہوریت کی بحالی اور جمہوری ماحول کو بہتر سے بہتر کرنے میں صرف ہوئی۔میاں چنوں کو جنوبی پنجاب کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ یہاں کے معروف سیاستدانوں میں غلام حیدر وائیں، ”بودلہ خاندان“ انور غازی اور پیر شجاعت حسین قریشی نمایاں ہیں۔ ملتان میں یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور انصاری صاحبان کے ساتھ ساتھ ڈوگر صاحبان بھی نمایاں ہیں۔ سید فخر امام بھی ملتان کے مضافاتی علاقے کے بہت نمایاں سیاست دان ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ آج کل وفاقی وزیر ہیں۔ ملتان کے صاحبزادہ فاروق علی خان بھی پیپلز پارٹی کے دور میں سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ مظفر گڑھ سے نوابزادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفی کھر، ربانی کھر نے بہت نام کمایا۔ حنا ربانی کھروزیر خارجہ بھی رہیں۔ غلام مصطفی کھر پہلے تو گورنر پنجاب رہے۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ بنے تو بہت اچھے ایڈ منسٹر یٹر ثابت ہوئے۔ خصوصاً پولیس کی ہڑتال کو ناکام بنانا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سے کھوسہ، مزاری، لغاری، دریشک اور گورچانی خاندان نے قومی اور صوبائی سطح پر سیاست کی۔ فاروق لغاری صدر مملکت بھی رہے۔ ذوالفقار کھوسہ گورنر رہے۔ دوست محمد کھوسہ وزیر اعلیٰ رہے۔ نصر اللہ دریشک بہت ہی با اثر وزیر رہے۔ ان کے صاحبزادے بھی آج کل صوبائی وزیر ہیں۔
لو دھراں پر جہانگیر ترین کے خاندان کا سکہ چلتا ہے۔ بہاول پور شہر سے احمد نواز شاہ گردیزی صوبائی وزیر رہے۔ انہیں چیتے پالنے کا شوق تھا یہ چیتے آزادانہ ان کے لان میں گھومتے پھرتے تھے۔ طالب علمی کے دور میں ہم وہ چیتے دیکھنے ان کی ماڈل ٹاؤن اے والی کوٹھی جایا کرتے تھے۔ ایک دن ان سے پوچھا کہ آپ کو ان چیتوں سے ڈر نہیں لگتا۔ انہوں نے جواب دیا۔ جس روز ان کے ڈرکا احساس ہوا کہ میں ان سے خوفزادہ ہوں یہ مجھے چیر پھاڑ دیں گے۔ طارق بشیر چیمہ وفاقی وزیر ہیں۔ انہوں نے بہاول پور شہر کی ترقی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ یزمان اور بہاول پور کو خوبصورت بنانے میں انہوں نے انتھک محنت کی ہے۔ علامہ رحمت اللہ ارشد ادرسیہ تابش الوری بہاول پور کے نمایاں سیاست دان ہیں۔ لیاقت پور کے حاجی سیف اللہ بے مثل مقرر تھے۔ وفاقی وزیر رہے اور لاجواب قانون دان تھے۔ صادق آبا د جمال دین والی سے مخدوم زادہ سید حسن محمود بہت عرصہ اسمبلی رہے۔ وہ ہمیشہ انگریزی میں تقریرکرتے تھے اور پڑھے لکھے ارکان اسمبلی کو ان کی تقریروں سے رہنمائی ملتی تھی۔ ان کے بیٹے مخدوم سید احمد محمود گورنر رہے اور جب وہ ضلعی ناظم تھے تو رحیم یار خان ضلع میں بہت ترقیاتی کام ہوئے۔
بہاول پور کی بات میں سیٹھ عبید الرحمن کا ذکر رہ گیا۔ وہ ہمیشہ اپوزیشن میں رہے۔ ان کے خاندان کے بلیغ الرحمن بعد میں ایم این اے اور وزیر مملکت رہے۔ خیر پور ٹامیوالی اور حاصل پور سے ریاض پیرزادہ بہت فعال ایم این اے رہے۔ وفاقی وزیر بھی رہے۔ چشتیاں اور ہارون آباد سے چوہدری عبدالغفور وفاقی وزیر رہے۔ اب ان کے صاحبزادے سیاست میں ہیں۔ اسی علاقے سے عبد الستار لالیکا وفاقی وزیر رہے اور شوکت علی لالیکا اس وقت صوبائی وزیر ہیں۔ ان کا تعلق منچن آباد سے ہے۔ چشتیاں کے پاس شہر فرید ہے۔ جسے سلیم خان لکھویرا نے آباد کیا تھا۔ یہاں کے نواب محمد بخش لکھویرا اور ان کے لواحقین علاقے کی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں، میں نے تونسہ کا ذکر نہیں کیا۔ تونسہ کے قبائلی علاقے کے بزدار کے خاندان کا اس علاقے میں بہت سیاسی اثرورسوخ ہے۔ بلدیاتی نظام سے لے کر صوبہ کی وزارت اعلیٰ تک پہنچنا بہت اہم بات ہے۔ سردار فتح محمد خان بزدار اس پسماندہ علاقے کے لیے بہت کام کرتے رہے۔ ان کی زندگی میں ہی سردار عثمان بزدار سیاست میں آگئے۔وہ گزشتہ تین سالوں سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد جب وزارت اعلیٰ کا انتخاب کر نا تھا تو پنجاب خصوصاً لاہور کے بڑے بڑے سیاسی گھرانے یہ عہدہ سنبھالنے کے لیے بے چین تھے لیکن وزیر اعظم نے اپنی فراست سے کام لیتے ہوئے عثمان بزدار کا انتخاب کیا۔ تین سال ہوگئے ہیں عثمان بزدار کے بارے میں منفی پرو پگینڈہ بھی کیا گیا۔ بڑے سیاسی گھرانے نے ان کی راہ میں روڑے بھی اٹکا تے رہے لیکن عثمان بزدار پُر عزم رہ کر حکومت کا نظام چلاتے رہے۔ وہ شریف نفس اور کم گو انسان ہیں۔ اپنی خدمات کو وہ اشتہار نہیں بناتے۔ چپ چاپ دیانت داری کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ ان کا دامن ہر الزام سے پاک ہے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کو اس کا حق واپس دیا ہے۔ اب بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے 35 فیصد رقوم مختص ہیں۔ پورے علاقے میں سڑکوں، تعلیم اور صحت پر توجہ دی جا رہی ہے۔ نئے ہسپتال بن رہے ہیں۔ نئی یونی ورسٹیاں، کالجز اور سکول بن رہے ہیں۔ اور ان تمام ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی وہ خود کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ چولستان اور تھل کے ریگزاروں میں صاف اور میٹھے پانی کی تلاش اور لائیو سٹاک کی ترقی کے لیے بہت کام کرنا چاہیے۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی ا ور پہاڑی علاقوں میں خواتین اور بچے کئی کئی میل پیدل ننگے پاؤں چل کر پانی لاتے ہیں۔ یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
(کالم نگارثقافتی اورسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain