تازہ تر ین

صحافت جو کبھی پیشہ تھاحق پرستوں کا

دثر اقبال بٹ
میں وزیر آباد کے ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں سب سے بڑا کام اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا تھا۔والد صوفی غلام محمد درویش منش تھے،ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے والے۔ان کے پاس نہ تو بہت سی زمینیں تھیں اور نہ ہی آبا کی جانب سے کوئی بڑی دولت ہی ملی تھی۔انہیں جو وراثت ملی وہ علم اور اچھے لوگوں کی سنگت میں رہنے کی تلقین تھی۔انہوں نے بڑی محنت کی،اپنی دنیا خود تعمیر کی۔ان کی یہ محنت اور ریاضت دونوں طرح کی حکمت سیکھنے کے لیے تھی۔وہ جسمانی علاج بھی کرتے اور نفس کی آلودگی کوپاک کرنے کے لیے تصوف کا سبق بھی دیتے۔تمام عمراسی درویشی میں گزار دی،نہ خود برائی کے رستے پہ چلے اور نہ کسی ظالم کو للکارتے ہوئے جھجکے۔ان کی یہ بے باکی اچھے کردار اور اعمال کا نتیجہ تھی۔ہمارے گھر میں رزقِ حلال کی تلقین کے ساتھ جو سبق ہمیں سکھایا گیا وہ کتابوں سے دوستی کا تھا۔گھر میں سلیقے کے سوا کتابیں ہی تھیں جو بہت تھیں،باقی اللہ کا شکر اور اس کی رضا میں راضی رہنے کی ریاضت تھی۔ مذہب، منطق، فلسفے، حساب، ادب اور تاریخ تک ہر موضوع پر کتابیں موجود تھیں،بھائی کوئی تھا نہیں دوست بھی کم تھے سومیں نے پہلی دوستی کتابوں سے کرلی۔ یوں کہہ لیجیے کہ کاغذ اور قلم سے رشتہ مجھے وراثت میں ملا۔کتابوں سے ہوتے ہوئے کتابوں کے مصنّفین سے ملنے کا شوق ہوا۔بچپن میں جن کے بارے میں سب سے زیادہ سنا وہ مولانا ظفر علی خان تھے۔پھر انہیں پڑھا اور ذہن میں جیسے گرہ باندھ لی کہ انہی کی طرح حیات کے شب و روزکارزار صحافت کی سیاحی کی نذر کروں گا۔
لڑکپن میں جناب حفیظ تائب کی سنگت نصیب ہوئی جو میرے ہمسائے بھی تھے اور بڑے بھائی بھی۔وہ بڑے عالم تھے لیکن نہایت دھیمے مزاج کے۔اسی دوران میں شورش کا قاری ہوا تو اک چنگاری سی تھی جس نے روح کو بے تاب کر کے رکھ دیا۔جوش جوانی میں انقلابی سوچ کی روانی ہوئی تو معاشرے سے اونچ نیچ کے خاتمے اور جاگیردارانہ سوچ کے خاتمے کی جنگ کا عزم باندھ لیا۔یہ عزم شورش کی محفل تک لے آیا۔اْن سے بولنا، لکھنا سیکھا اور مطالعے کی پیاس بھی خوب بجھائی۔اسی دوران ختم نبوتؐ کی تحریک میں شریک ہوا اور اپنے علاقے کے نوجوانوں کو بھی متحرک کیا۔اسی طرح وقت کا دریا بہتا رہا اور میں اس سے سبق سیکھتا چلا گیا،کبھی اس کی خاموشی اور کبھی طلاطم خیز موجیں بہت کچھ سکھاتیں۔میری زندگی بڑی ترتیب سے آگے بڑھی ہے،جہاں صرف نظریہ ہی رہنما رہا ہے۔میں نے سمجھوتے کم ہی کئے،یا پھر قدرت نے کبھی ایسے امتحان میں ڈالا ہی نہیں جہاں اصول اور مجبوری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔
آپ بھی کہیں گے کہ کیا کہانیاں لے بیٹھا ہوں۔لیکن یہ قصے کہانیاں ہیں بہت اہم اور ان کا تعلق آج کی نشست سے بہت گہرا ہے۔چلیے ایک اور شخصیت کو یاد کرتے ہوئے چلتے ہیں۔یہ مولاناچراغ حسن حسرت ہیں۔میں نے اپنے اساتذہ سے ان کے بارے میں بہت سنا،پھر انہیں پڑھا تو حیرت ہوئی کہ ایک ہی شخص کے ہُنر کی اتنی جہتیں کیسے ہوسکتی ہیں۔وہ منجھے ہوئی صحافی ہیں،باکمال شاعر ہیں اورمزاح نگار بھی۔کیسے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو مولانا کے ہمراہ ہوئے ہوں گے۔کاش مجھے بھی اْن کی سنگت نصیب ہوئی ہوتی۔ راوی بتاتا ہے کہ حسرت صاحب اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب میاں افتخار الدین نے ”پاکستان ٹائمز“ اور روزنامہ ”امروز“ نکالے تو حسرت صاحب کو امروز کی ادارت کے لیے چْنا۔ ایک بار میاں صاحب نے مولانا کو طلب کر کے شکایت کی کہ آپ نے میرے جلسے کی خبر صفحہ دوم پر کیوں چھاپی ہے؟
حسرت صاحب نے جواب دیا:
”میاں صاحب جب آپ صفحہ اول کے لائق ہو جائیں گے تو آپ کی خبر پہلے صفحے پر ہی چھاپوں گا“۔
یاد رہے، یہ مکالمہ اخبار کے مالک اور مدیر کے درمیان ہو رہا ہے۔ میاں صاحب بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے،سات سمندر پار سے پڑھ کر آئے تھے اور پھر حکومت کا اہم حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی مضبوط آواز بھی سمجھے جاتے تھے۔حسرت کی بے باکی پر ہونٹ بھینچ لیے لیکن کچھ بولے نہیں۔جانتے تھے کہ حسرت اخبار کی جان ہیں۔ وہ جو بات کہیں گے صحافتی اصولوں کی بنیاد پر ہی کہیں گے۔اس کے بعد جب تک حسرت مدیر رہے میاں صاحب شاذو نادر ہی صفحہ اول پر چھپے۔
اسی طرح شورش کاشمیری بھی کیا کمال آدمی تھے۔ایسے جرأت مند کہ حرف حق کہنے کی بات ہوتو کیا راہِ مقتل اور کیا دار کا تختہ۔تمام عمر اسی خْو سے لکھا اورخوف کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیا۔ بھٹو صاحب ہوں یا جماعت اسلامی، انہوں نے ڈَٹ کے صحافت کی اور بھرپور تنقید لکھی۔بہت دور کی بات نہیں، میرے مہربان مجیب الرحمان شامی نے بھی بھٹو دور میں بڑی تیکھی صحافت کی۔اْن پر مقدمات ہوئے، جیل بھیجاگیا اور ان کے اخبارات کے ڈیکلیریشن تک منسوخ ہوئے لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔جب میری باری آئی تو میں نے بھی اپنی دنیا خود آباد کی۔ چھوٹا موٹا اخبار نکالا،چونکہ شورش صاحب سے متاثر تھا، سو اْسی لہجے میں لکھا اور بات کی۔ قاتلانہ حملے ہوئے، دھمکیاں ملیں اور مقدمات کی تو پوچھیے ہی مت۔ پھر بھی میرے لہجے میں لْکنت نہیں آئی، میں ڈرا نہیں، گھبرایا بھی نہیں۔وہی کہتا رہا جو نوشتہئ دیوار تھا۔ہاں،دوسروں کومیرے لہجے سے اختلاف ہو سکتا ہے۔کہیں ضرورت سے بڑھ کر تلخ لکھ دیا ہوگا یا لفظوں کے چناو میں احتیاط نہ برتی ہوگی۔ایسا بہت بارہاہوا ہوگا،لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے دل کی بات کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ کی۔یہی وجہ ہے کہ میرے تعلقات ہمیشہ اصولی بنیادوں پراستوار ہوتے اور ختم ہوئے۔انہی اصولوں کی بنیاد پر کل کی دشمنیاں آج کی دوستی بنیں اور قریبی رشتے حاسدانہ رویوں کی بھینٹ چڑھے۔ لیکن میں نے اپنے اصول نہیں چھوڑے،اپنے نظریہ صحافت پر سمجھوتا نہیں کیا۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آج سے 40 سال پہلے تک صحافت بہت مختلف تھی، اخبار وہ لوگ نکالتے تھے جن کا کہیں کوئی تعلق علم و ہنر سے نکلتاتھا۔ صحافت کے لہجے کی بات الگ ہے۔ اخبار میر شکیل بھی نکال رہے تھے ا ور نظریہ پاکستان والے مجید نظامی بھی۔ ممتاز شاہ جیسے روشن خیال لوگ بھی تھے اور مجیب الرحمان شامی یا جمیل اطہر جیسے دائیں بازو والے بھی۔ضیا شاہد کا الگ رنگ تھا۔میں اور چودھری غلام حسین ذرا بلند آہنگ لہجے میں للکارنے کے قائل تھے۔سب کا سٹائل الگ تھا،نظریہ صحافت بھی مختلف تھا، لیکن یہ نہیں تھاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی غیرہنرمندسے صحافت سیکھتا ہو۔خود لیڈ اور سپر لیڈ کا انتخاب کرنے کی بجائے اپنے مالک آقا سے اجازت کا منتظر ہو۔میں اسے خالص تر غیر فطری عمل سمجھتا ہوں کہ آپ صحافت کا نام لیں اور کسی سیٹھ کو عقل ِ کْل بھی مان لیں۔ایسا ہی ایک غیر فطری تجربہ تب ہوا جب میرے مرحوم دوست ضیا شاہد نے اکبر بھٹی کے ساتھ مل کر روزنامہ ”پاکستان نکالا“۔اخبار ضیا شاہد نے نکالا تھا سو نہایت شاندار تھا لیکن ضیا شاہد کچھ ہی عرصہ ساتھ چل سکے۔میں سمجھتا ہوں اس کی بنیادی وجہ ضیا شاہد کا صاحب ِ فکر ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل صحافی ہونا بھی تھا۔ صحافی یا سچا قلمکار ہمیشہ ہوا کی مانند آزاد ہوتا ہے۔ اسے کوئی پابند کر کے اپنی سوچ کے کھونٹے کے ساتھ نہیں باندھ سکتا۔سرمایہ دار کتنا ہی طاقتور کیوں نہ
ہو،وہ ایک دانشورکی سوچ خرید سکتا ہے نہ اس کے الفاظ میں اپنے پست خیالات کا رنگ بھر سکتا ہے۔
بہر حال یہ 35-30 برس پہلے کی باتیں ہیں جب صحافت ایسی زبوں حالی کا شکار نہیں تھی جیسی اب ہے۔حالات بدل گئے ہیں، آج چراغ حسن حسرت، شورش کشمیری یاجناب ضیا شاہدجیسے لوگ نہیں رہے۔مجیب الرحمان شامی ایسے نہایت کم لوگ ہیں ماضی کی روایات زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آج اخبار نکالنا صحافت نہیں رہابلکہ کاروباربن چکاہے۔اب یہ علم و ہْنر کا امتحان نہیں بلکہ دھندا بن چکا ہے۔آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یوں کہہ لیجیے کہ ماضی میں جن مراکز سے تصوف کے چشمے پھوٹا کرتے تھے آج ان کی جگہ غیرہنرمندوں نے لے لی ہے۔ وہ صحافی جو سرمایہ داروں کے ساتھ کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے تھے آج غم روزگار کے باعث انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔کیسے کیسے لکھنے اور کہنے والے تھے۔صحافت کیا تھی اور کیا ہوگئی۔
دوستو!اب صحافت وہ نہیں رہی جو 40 یا 50 سال پہلے تھی۔جن کا تعلق صحافت سے دور دور کابھی نہیں انہوں نے اخبار نکال لیے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ یکدم ضیا شاہدیا مجیب الرحمان شامی ہو جائیں گے۔
آخر پر یہی کہوں گا کہ آج صحافت کا معیار ختم ہونے کی وجہ یہ نان پروفیشنلز ہیں ان سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ سچ کہیں یا حق کی بات کرے۔ آج کے دور میں آپ کہاں سے ڈھونڈھ کر لائیں گے چراغ حسن حسرت اور کہاں سے لائیں گے شورش جیسی دلیری۔ وقت کے ساتھ وہ لعل بھی گم ہو ئے اور ہیرے بھی مٹی کے حوالے ہوچکے۔ اب بچا ہے تو بس کچرا، صحافت ہو یا سیاست، کچھ بھی باقی نہیں رہا۔جہاں اتنی مایوسی ہے وہاں امتنان شاہداورعمر شامی ایسی امید کی کرنیں محسوس ہوتے ہیں جو شاید ان اندھریوں میں ماضی کی روایات کا وجود زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح ایک آدھ اور بھی ہوں گے جو سیٹھوں کے دست شفقت کے سائے میں صحافت نہیں کرتے ہوں گے لیکن دوسری جانب تو جیسے پورے کا پورا قبیلہ ہی وسائل کے ان ”سامری جادوگروں“کے بچھڑے کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہے۔اب ان حالات میں کیا کہا جائے اور کیا نہیں، میرے جیسے لوگ پرانی باتیں یاد کر کے خون ہی جلا سکتے ہیں۔
(کالم نگارمعروف صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain