تازہ تر ین

طالبان کی طاقت

سردارآصف احمدعلی
پندرہ اگست کے بعد افغانستان میں اب تک مشروط حکومت نہیں بن سکی لیکن طالبان اس عمل میں پوری طرح مصروف ہیں اور اب تو تحریک طالبان کے سینئر قائدین کابل پہنچ چکے ہیں۔ شمالی افغانستان کے قائدین کا ایک وفد پاکستان کا دورہ بھی کر چکا ہے اور وفد کے قائدین نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ٗ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر لی ہیں۔ کابل میں اب جناب حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی طالبان کے قائدین کے ساتھ بہت سی میٹنگیں کر چکے ہیں اور گزشتہ دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار نے بھی طالبان کے قائد کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ اس سارے عمل میں پاکستان کا ایک کلیدی کردار نظر آ رہا ہے۔ چاہے وہ وزیر خارجہ ہوں یا کابل میں پاکستان کے سفیر ہوں، یہ عمل تو اب ہم نہیں جانتے کہ کب تک جاری رہے گا لیکن کچھ ایسی ڈویلپمنٹس ضرور ہوئی ہیں جو قابل ذکر ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
(1 مغربی میڈیا اور مغرب کی قیادت کے رویئے اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور تاثر یہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان افغانستان کی حکومت نہیں چلا سکیں گے اور آئندہ افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات ہیں۔
(2 بین الاقوامی رپورٹنگ کا محور کابل ایئرپورٹ بن چکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ مغرب کی دلچسپی صرف اسی ایئرپورٹ پر ہے نہ کہ افغانستان کے عوام پر یا ان کے مستقبل پر۔ یہ بتانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ افغانستان کے عوام طالبان سے خوفزدہ ہیں اور وہ بیرونی ممالک میں جانا چاہتے ہیں۔
(3 مغرب کے اندازوں کے مطابق خانہ جنگی کی جوپیشگوئی کی گئی تھی اور وہ کسی حد تک درست بھی نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک سابق نائب صدر نے پنج شیر وادی میں جا کر اعلان بغاوت کر دیا ہے۔
(4 اب یاد رہے کہ وادی پنج شیر چاروں طرف سے طالبان کے گھیرے میں ہے اور وہ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے اور مصالحت کی طرف معاملات کو لے کر جانا چاہتے ہیں۔ ابھی تک پنج شیر کی قیادت نے اس بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ پنج شیر وادی پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور اس پر حملہ کرنا یا قبضہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب روس کا افغانستان پر قبضہ ہوا تو انہوں نے بھی پنج شیر وادی کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی ملا عمر کے دور میں ہوا جبکہ پنج شیر وادی کو انہوں نے بھی اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ روس کی پالیسی سے اور نہ ہی ملا عمر کی پالیسی سے پنج شیر وادی کا افغانستان پر کوئی اثر پڑا۔ اب بھی طالبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پنج شیر میں وہ اپنا مورچہ بنائے رکھیں گے اور وہ وہاں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ اس طرح بھی ہے کہ پنج شیر کی آبادی تمام کی تمام تر تاجک قومیت پر مشتمل ہے اور باقی افغانستان میں تاجک بہت کم ہیں اور بڑی بھاری اکثریت پختونوں کی ہے لہٰذا پنج شیر سے جو امیدیں بیرونی ممالک لگائے بیٹھے ہیں، ان کو بڑی سخت مایوسی ہوگی۔ نہ ہندوستان وہاں سے کچھ پا سکے گا اور نہ ہی مغربی قوتیں کچھ حاصل کر پائیں گی۔
(5 پاکستان کے لئے خوشخبری ہے کہ افغان طالبان نے یہ اعلان کیا ہے بلکہ ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے جس کے تحت وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا سدباب کریں گے۔ پاکستان بڑا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور اب تک ہزاروں لوگوں کو وہاں سے بذریعہ ٹرک اور ہوائی جہاز نکال چکا ہے۔
(6 سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ایک مخلوط حکومت بنا سکیں گے یا نہیں اور اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو وہ اتحادیوں کو اقتدار میں کس قدر حصہ دینا پسند کرے گی۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ جو شمالی علاقے ہیں، ان کے قائدین کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کو ساتھ ملانا طالبان کی کوئی مجبوری ہے اور اس سے وہ اپنی قیمت کو زیادہ بڑھا نہ لیں۔ اس نکتے پر ہی سمجھوتہ ہوگا یا پھر نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب افغانستان میں طالبان کا 99 فیصد قبضہ ہے۔ اس حقیقت کو اگر شمالی اتحاد والے بھول گئے تو پھر وہ افغانستان کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ وہ اپنی طاقت کے مطابق اپنا حصہ مانگیں تو پھر بات بن سکتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ طالبان اتنی بڑی طاقت بن چکے ہیں کہ اب انہیں اقتدار میں بہت بڑا حصہ دینا پڑے گا۔ آئندہ حکومت میں صدر بھی انہی کا ہونا چاہئے۔ وزیر خارجہ ٗ وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ اور وزیر اندرونی سیکورٹی وہ بھی انہی کے بنانے پڑیں گے۔ اگر کچھ مزید نائب صدور بنانے ہوں گے تو پھر ایک تاجک نائب صدر بن سکتا ہے اور ایک ترک قومیت کا نائب صدر بن سکتا ہے۔ کچھ اس طرح سے اقتدار میں حصہ داری ممکن ہوگی۔ مگر بالآخر یہ افغانیوں ہی کا فیصلہ ہے اگر اس نوعیت کا فیصلہ ہو گیا تو پھر ساری دنیا اس حکومت کو تسلیم کرلے گی اور اگر یہ فیصلہ نہ ہو سکا تو اس کی ساری کی ساری ذمہ داری شمالی اتحاد کے اوپر آئے گی اور حامد کرزئی پر آئے گی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر آئے گی۔
اس وقت یہ سوال اٹھے گا کہ کیا افغانستان کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ اگر یہ وقت آتا ہے تو پاکستان کو کیا کرنا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کو فوری چین ٗ روس ٗ ایران اور ترکی کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے اور پھر یہ پانچوں ملک مل کر یہ فیصلہ کریں کہ بیک وقت افغان حکومت کو تسلیم کر لیں۔ اس کے بعد اس میں دنیا کے دیگر بہت سے ممالک بھی شامل ہو جائیں گے کیونکہ سیکورٹی کونسل کے دو مستقل ممبر اس فیصلے میں شریک ہوں گے اور وہ ہیں چین اور روس۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain