تازہ تر ین

میں جانتا ہوں کہ میں نہیں جانتا

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
اے پروردگار ہمیں اکیلا نہ چھوڑنا۔ بے شک تو بہترین وارث ہے۔ انسان بہت کمزور ہے، جذبات کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جذبات کو قابو میں رکھنے کے لئے نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ میں نے قربانی عید پر ایک دوست سے پوچھا کہ اس دفعہ آپ کس جانور کی قربانی دے رہے ہو تو اس کا کیا خوبصورت جواب تھا کہ سر! ہم نفس کو قربان کرنے جارہے ہیں۔ میں اس کی بات سن کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی ہوا کہ دنیا میں اور خاص طور پر آج کے دور میں بھی ایسے انسان موجود ہیں جو نفس کی قربانی دینے کا سوچتے ہیں۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ نفس کسے کہتے ہیں۔ وہ بولا حرص کو، لالچ کو، کینہ اور بغض و عناد کو، انا کو۔ میں نے سوال کیا کہ یہ ساری قربانیاں ایک ہی موقع پر؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے کہا کہ
روز یہ کہتا ہوں کہ اب نہ تجھے دیکھوں گا لیکن
روز تیرے کوچے میں کوئی کام نکل آتا ہے
دوست نے خاموشی توڑی اور واہ واہ کرنے لگا۔ میرے شعری انتخاب کی داد دینے لگا۔ میں نے کہا بس کر میرا نفس تیری واہ واہ پر خوش ہو رہا ہے۔ واہ واہ انسان کو تباہی کی طرف بھی لے کر جاتی ہے اور اگر نفس قابو میں رہے تو اصلاح کی طرف بھی۔ درگاہ گولڑہ شریف کے ایک صاحبزادے بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ ان کے والد گرامی ان کو مشاعروں میں جانے سے روکتے تھے۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مشاعروں میں شاعری پر ہونے والی واہ واہ انا کے پودے کو پانی دیتی ہے جس سے اس کی افزائش ہوتی ہے۔ اور جب انا کا پودا پروان چڑھ جاتا ہے تو پھر اسے کاٹنے میں وقت لگتا ہے۔ وقت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ کبھی مستقل کسی کا نہیں ہوتا۔ آج میرے ساتھ ہے تو کل کسی اور کے ساتھ۔ لیکن اس کی ایک خوبی ضرور ہے کہ یہ جب کسی کے ساتھ ہوتا ہے تو پھر منافقت سے پاک ہوکر انسان کا ساتھ دیتا ہے۔ منافقت بھی عجیب چیز ہے انسان سوچتا ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے اس کا استعمال جائز ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ مفادات کے حصول کے لئے ڈپلومیسی سے کام لینا چاہیے منافقت سے نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لوگ ڈپلومیسی اور منافقت میں فرق نہیں کرتے۔ کیا فرق ہے دونوں میں؟ منافقت کا استعمال ہمیشہ منفی مقاصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے، چور دروازوں سے داخل ہونے کے لئے کیا جاتا ہے۔ انسان کو دھوکہ دینے کے لئے کیا جاتا ہے، قول و فعل میں تضاد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
ڈپلومیسی کی بنیاد گفت و شنید پر ہوتی ہے اور پھر جو معاہدات وجود میں آتے ہیں ان کی پاسداری من وعن فرض ہو جاتی ہے۔ ڈپلومیسی ایک سکل ہے جو ہر شخص میں نہیں ہوتی۔ اس معاشرے میں ہنرمند افراد کی ویسے بھی کمی ہے۔ ویسے تو انسانوں کی بھی کمی ہے کیونکہ انا پرست زیادہ ہیں۔ اور اپنی انا کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہر انسان فرشتہ بننے کی کاوش میں لگا رہتا ہے۔ بشر بننے کی خواہش کسی کے اندر نظر ہی نہیں آتی۔ انا پرستی کو قابو میں رکھنے کے لئے “میں ” کی نفی کرنی پڑے گی۔ ہمارے دوست انجم سلیمی نے اپنی کتاب کا نام “میں ” رکھ دیا لیکن ”میں“ کو مارنے کا کوئی طریقہ نہ بتا سکا۔ ہمارے ایک اور دوست اپنے آپ کوبہت بڑے محقق سمجھتے ہیں اور اکثر اپنی تعریف خود کہہ جاتے ہیں کہ میں بڑا دعویٰ نہیں کرتا لیکن تیرے ادارے میں میرے جیساکوئی ہے تو سامنے لے کر آئیں۔ جب اس کی بات پر سب خاموش رہیں تو پھر کہتا ہے کہ مجھے ہر بندہ نہیں جان سکتا ہے کیونکہ ان کے بس میں نہیں ہے اگر کوئی جان سکتا ہے تو وہاں بیٹھے ہوئے کسی دوست کا نام لے لے گا کہ میرے بارے میں جاننا ہے تو اس سے پوچھو۔ ہم پروفیسر لوگ اپنی قابلیت کا یقین دلوانے کے لئے دوسروں کی گواہی ضروری سمجھتے ہیں ورنہ ہمیں خود اپنی قابلیت پر شک ہونے لگتا ہے۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے اور صوفیہ کرام کی شاعری میں پڑھا بھی ہے کہ انسان پر جیسے جیسے علم کا بوجھ پڑتا ہے وہ عاجزی اور انکساری کی طرف جاتا ہے۔
کسی نے کہا کہ عارف وہ ہے جو علم کا سمندر پی جائے اور پتہ بھی نہ چلے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علم جذب کرنا بھی بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ جذب کرنے کے لئے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اور ریاضت کسی استاد کے بغیر ممکن نہیں۔ اب استادوں پر بات آگئی ہے لہٰذا محتاط ہو کر گفتگو کرنی پڑے گی ورنہ فتوے استادوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔ جو وہ اکثر اپنے دوست پروفیسروں پر ہی استعمال کر جاتے ہیں۔ اچھے خاصے مسلمان انسان کو قادیانی بنا دیتے ہیں، محب وطن شخص کو پاکستان مخالف بنا دیا جاتا ہے، اخلاقی اور معاشی الزامات کی بوچھاڑ تو ہر وقت مخالف کی تلاش میں رہتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا درس دے کر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ہمارے جیسا کوئی دنیا میں مسلمان ہے ہی نہیں۔ بس نہیں چلتا ورنہ نعوذ باللہ نبوت کے دعوے بھی ہونے لگیں۔ خیر ہم ایسے استادوں پر بات کرکے اپنے کالم کی خوبصورتی ختم نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری تاریخ دان ہیں۔ ڈاکٹر تنویر انجم ان کا خیال ہے کہ جو ساری عمر احساس محرومی میں گزارتے ہیں ان کے پاس جب علم آتا ہے تو وہ بہت خطرناک ہوجاتے ہیں۔ انسانوں کو آپس میں لڑواتے ہیں، ان کو عزت ملتی ہے تو وہ فوری طور پر فرعون بن جاتے ہیں انسانوں سے ہتک آمیز رویہ اختیار کر لیتے ہیں جب بس نہیں چلتا تو شدید منافقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ لیکن من کو مارنے کے لئے ان استادوں کی ضرورت ہے جو نمی دانم کے فلسفے کے قائل ہیں اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جنھوں نے اپنی ذات کی نفی کی وہ امر ہوگئے۔
سارے پنجابی صوفی شاعر اسی بات کا پرچار کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے کہ میں ناہیں سب توں، کسی نے کہا کہ ”میں نوں مار کے مُنج کر۔۔۔نکی کر کے کُٹ۔۔۔بھرے خزانے رب دے جو بھاویں سو لٹ“۔ ایسے استادوں کی تلاش ضروری ہے جو عاجزی اور انکساری کا درس دیتے ہوں اپنے شاگردوں کو تاکہ خودغرضی، نفسانفسی، انا پرستی، منافقت،دکھاوا اور انسانوں کو نیچا دیکھانے کی حرص سے جان چھوٹ سکے۔ خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کوئی دکھائی نہ دے۔ دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس بصارت ہونی چاہیے اور بصارت کے لئے ضرورت ہے کہ آنکھوں کے کُکرے صاف کرواے جائیں تاکہ آنکھیں صحیح کام کر سکیں اور انسان کی معاونت کر سکیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آ سکتا نہیں۔۔۔۔۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ دنیا میں زاوئیے بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اشفاق احمد کا خیال ہے کہ زاویہ بدلنے سے انسان تکبر سے بچ جاتا ہے۔ جب تکبر ختم ہو جائے تو پھر وہ زمین پر نہ تو اکڑ کر چلتا ہے اور نہ ہی انسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بناتا ہے۔ ویسے تو اس ملک میں کئی منصوبہ ساز آئے اور چلے گئے لیکن ملک کی ترقی کا انحصار شعور پر ہے۔ جو انسانوں میں یکدم نہیں آجاتا بلکہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے تبدیلی بھی فوری ممکن نہیں ہوتی۔ تبدیلی افراد کی تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ نظام کی تبدیلی ہے۔ نظام کی تبدیلی مثبت تنقید کی گود میں جنم لیتی ہے۔ تنقید برائے تنقید کے ہم لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنی ہر تخلیق ہمارے لئے باعث رحمت بنائے۔آمین
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain