تازہ تر ین

حکومت کے تین سال۔کیا کھویا کیا پایا

ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بر سر اقتدار آئے ہوئے تین برس کا عرصہ گزر گیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی تمام تر کا وششوں کے باوجود حکومت نہ صرف بددستور اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہے بلکہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے اب حکومت کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے،دعوئے کیے نیا پاکستان کا خواب ہر خاص و عام کو دکھایا اور اسی سلوگن سے متاثر ہو کر پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا اور ان کو بر سر اقتدار لے کر آئے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے زعما کو حقیقت کی دنیا کا ادراک ہوا ان کو معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہے اور حالات بہت سخت ہیں اور ان حالات میں عوام کی خواہشات پر پورا اترنا کسی صورت آسان نہ ہو گا۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسوں کے باعث بہت کم رہ چکے تھے اور تیزی کے ساتھ گر رہے تھے،پاکستان کو اگر فوری طور پر چین،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امداد نہ ملتی تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات تھے۔پاکستان دوست ممالک کی امداد کے باث دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں کے باعث ان پر بہت تنقید ہو ئی کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہلے تو آئی ایم ایف پروگرام میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ بر وقت نہ کرسکی اور جب گئی تو سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام لیا گیا جس کے باعث پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا،شرح نمو نہایت ہی کم ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور بے روزگاری کا ایک طو فان آگیا۔اگرچہ اب جا کر شرح نمو میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا روپیہ اب بھی مسلسل گر رہا ہے اور مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔عوام مہنگائی کے باعث بہت پریشان ہیں اور حکومت ابھی تک ان کو اس حوالے سے ریلیف دینے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔معیشت یقینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ان تین سالوں کے دوران سب سے بڑا چیلنج رہا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی پاکستان تحریک انصاف دیگر شعبوں میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے،الیکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے ادارہ جاتی اصلاحات،پولیس اورنظام عدل میں جامع اصلاحات،سمیت انتخابی اصلاحات سمیت کئی وعدے کیے۔ کرپشن ختم کرنے کا 90روزہ پلان دیا گیا،نظام احتساب کو بہتر کرنے کے وعدے کیے گئے،لیکن اب جبکہ حکومت اپنے تین سال مکمل کر چکی ہے یہ تمام وعدے اور دعوے ایک سیراب کی مانند ہی محسوس ہو رہے ہیں۔اس بات کی مثال میں یوں دوں گا کہ حالیہ دنوں میں یوم آزادی کے موقع پر لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں مینار پاکستان پر ایک خاتون کے ساتھ ایک نہایت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کے بعد خاتون نے میڈیا کو بتا یا کہ واقعے کے دوران اس نے دو بار پولیس کی ہیلپ لائن 15پر کال کرکے پولیس سے مدد طلب کی لیکن مدد کو کوئی نہیں آیا،اور بس یہی بات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پولیس سمیت دیگر اداروں میں اصلاحات کے دعوؤں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ احتساب اور بڑے پیمانے پر کرپشن 90روز میں ختم کرنا بھی پاکستان تحریک انصاف کا عوام کے ساتھ کیا گیا ایک کلیدی وعدہ تھا جو کہ ابھی تک پورا ہو تا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے،اگرچہ احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ تو بہت ہوئی ہے لیکن کسی بھی بڑی مچھلی سے کوئی بھی بڑی ریکوری نہیں ہو سکی ہے۔ اگرچہ نیب کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ دور میں 500ارب روپے سے زائد کی ریکوریز ہوئی ہیں لیکن کسی بھی سیاست دان سے کو ئی ریکوری نہیں ہو سکی ہے، اور احتساب کا عمل بذات خود ہی سیاست کا شکار ہو چکا ہے۔لیکن جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی ادارے میں کوئی بھی ادارہ جاتی اصلاحات کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے،وہیں پر کچھ اچھے کام بھی ضرور کیے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا بنتا ہے۔حکومت نے پنجاب اور کے پی کے میں صحت کارڈز تقسیم کیے ہیں اور اب یہ سلسلہ بلوچستان میں بھی شروع ہو گیا ہے۔اس سکیم کے تحت اس کارڈ کے ذریعے شہریوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولیات دی جا رہی ہیں جو کہ یقینا ایک قابل ستائش بات ہے اس کے علاوہ کسان کارڈ،اور کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام کے تحت لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھولنے کا پروگرام بھی قابل تعریف ہے۔
خارجہ محاذ پر یقینا حکومت نے اہم کامیابیاں ضرور سمیٹی ہیں،جن کی تعریف کی جانی چاہیے،2019ء میں بھارت کے ساتھ ہونے والی کشیدگی میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا اور پاکستان نے سفارتی طور پر اہم کامیابی حاصل کی جبکہ اس کے بعد بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے معاملے پر بھی وزیر اعظم اور حکومت نے عالمی سطح پر خاصا موثر کردار ادا کیا۔سعودی عرب سمیت عرب ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ افریقا کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات میں اضافہ بھی حکومت کی اہم سفارتی کامیابیاں ہیں۔موجودہ افغان بحران میں بھی حکومت پاکستان کی کا رکردگی اور سفارت کاری بہت بہتر رہی ہے،اور سابق افغان حکومت اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششیں کا رگر ثابت نہیں ہو سکیں ہیں۔پاکستان خطے مین ایک اہم ملک کے طور پر ابھرا ہے اور اپنا کردار بہتر انداز میں نبھا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے ان تین سالوں میں پارلیمان کو بہتر انداز میں چلانے مین ناکام رہی ہے،اور حکومت کا زور قانون سازی سے زیادہ آرڈیننس جاری کرنے پر رہا ہے،دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک سیراب ہی رہا ہے،لیکن وزیر اعظم عمران خان کے احتساب کے بیانیہ کی موجودگی میں شاید اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ناممکن ہی تھا لیکن پھر بھی اس حوالے سے معاملات کو قدرے بہتر انداز مین مینج کیا جاسکتا تھا جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں کر سکی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بھی کچھ بات کی جائے تو اپوزیشن جماعتوں کا کردار ہمیں نہایت ہی کنفیوژ نظر آتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کا آپس میں مفادات کا ٹکراؤ اور اندرونی اختلافات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے نہایت تقویت کا باعث بنے ہیں۔اگر کہا جائے کہ اپوزیشن بھی گزشتہ تین سالہ دور میں موثر کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
حکومت کے تین سال میں جہاں پر حکومت کی کامیابیاں ہیں وہاں پر ناکامیوں کی فہرست بھی طویل ہے۔اگر کہا جائے کہ حکومت اب اپنی مدت کی 65فیصد معیاد پوری کر چکی ہے اور اب صرف 35فیصد وقت باقی رہ گیا ہے تو یہی حقیقت ہے،حکومت کے پاس اب پہلے سے شروع کیے گئے منصوبوں کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کا وقت ہے، نئے منصوبے شروع کرنے کا وقت گزر چکاہے۔ دیکھنا ہو گا کہ حکومت 2023ء میں اپنی مدت کا اختتام کیسے کرتی ہے کیا اس وقت تک مہنگائی پر قابو پا یا جاسکے گا یا نہیں؟ یہ شاید اس حکومت کے مستقبل کے لیے سب سے اہم سوال ہے۔حکومت کے پاس اپنی کمیوں اور کو تاہیوں پر قابو پانے کے لیے دو سال کا وقت ابھی باقی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری اب بھی عوام کے لیے سب سے بڑے مسائل ہیں ان کو حل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔انہی مسائل کی بنیاد پر عوام 2023ء میں اپنا فیصلہ سنا ئیں گے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain