تازہ تر ین

طالبان کا کڑا امتحان

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغان طالبان نے جس سرعت اور تیزی کے ساتھ افغانستان کو غیر قانونی بیرونی قبضے اور کٹھ پتلی حکومت سے آزاد کروایا اس نے ساری دنیا کوورطہئ حیرت میں ڈال دیاہے۔ عین ممکن ہے میرے پہلے جملے میں الفاظ کے چناؤ پہ کچھ لوگوں کو اعتراض ہو۔ لیکن یہ بات تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجیں اقوام متحدہ کی اشیرباد اور دنیا کے اثبات کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوئیں لیکن جونہی انہوں نے اپنے ابتدائی ہدف حاصل کر لئے تھے جن کیلئے ان کو اقوام متحدہ اور عمومی طور پر دنیا کی حمایت حاصل تھی اس کے فوراً بعد ان کا انخلا ہو جانا چاہئے تھا۔ اس کے بعد ان کے وہاں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا اس لئے ہم اس لمبے قبضے کو غیر قانونی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں۔
کیا یہ ایک فقط عسکری فتح ہے؟ ہرگز نہیں، گو کہ عسکری حکمت عملی بھی اس کامیابی کی ایک وجہ ہے لیکن ہم تو اس کو سیاسی و عسکری انقلابی مہم کہیں گے۔ اس میں نفسیاتی اور انٹیلی جنس آپریشن بھی شامل تھے گو کہ بین الاقوامی میڈیا بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں تمام معاملہ کیا تھا اور حالاات اب کس نہج پہ چل رہے ہیں۔
حالات کی سمجھ بوجھ: سب سے پہلے امریکہ، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے غچا کھایا جب انہوں نے افغان فوج کے مقابلے میں افغان طالبان کی طاقت اور جذبے کا بہت غلط اندازہ لگایا۔ غالباً جب امریکہ نے یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو ان کو اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں تھی کہ افغان حکومت اور فوج کے ساتھ کیا بیتے گی۔ اشرف غنی کو کیل کانٹے سے لیس اپنی فوج پر بہت اعتماد تھا۔ کیونکہ ان کے پاس ماڈرن ہتھیار، ہیلی کاپٹر‘ رات کو دیکھنے والے آلات اور لڑاکا جہاز بھی موجود تھے۔ طالبان نے جنگ سے پہلے کی پوری تیاری کی اور تقریباً تمام صوبوں میں خفیہ طور پر اپنے مندوب بات چیت کے لئے بھیجے۔ انہیں اقتدار کا لالچ دیا اور کہیں دھمکی استعمال کی اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جنگ جیت چکے تھے۔
تزویراتی حکمت عملی کا موازنہ: طالبان نے سب سے پہلے نسبتاً خالی علاقوں اور آمدورفت کے راستوں پہ قبضہ کیا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنے بھی سرحدی رابطے تھے ان کے راستوں کو پکڑا اور آخر میں شہروں کا رخ کیا جہاں پہلے ہی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ بغیر زیادہ خونریزی کے تقریباً تمام ملک پر تسلط قائم کر لیا اور طرہئ امتیاز یہ کہ کابل پر ایک بھی گولی چلائے بغیر حاوی ہو گئے۔ ان کی اس تیز رفتار فتح نے دنیا کوورطہئ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس میں کوئی عسکری منطق نظر نہیں آتی تھی۔ اسی لئے ہم اسے سیاسی اخلاقی اور فوجی فتح کا امتزاج کہیں گے۔
دوسری جانب افغان فوج نے بہت بے ڈھنگی حکمت عملی اختیار کی اور طاقت کو یکجا رکھنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی کمزور ٹکڑیوں میں بانٹ کر دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جہاں ان کو فضائی مدد پہنچانا بھی دشوار تھا۔ افغان فوج میں کچھ اور مسائل بھی تھے۔ مثلاً ان کے پیادے زیادہ تر پشتون اور آفیسر تاجک اور ترک نسل کے تھے۔ اس کے علاوہ افغان فوجیوں میں جذبے اور مقصد کی شدید کمی تھی۔ وہ دوسرے عوام کی طرح قابض فوج کے رویے اور اشرف غنی اور اس کی حکومت کی بدعنوانیوں سے بھی نالاں تھے۔ اور جب انہیں نظر آیا کہ عوام اور ان کے بڑے لیڈر ہر صوبے میں طالبان کا پرجوش استقبال کر رہے ہیں اور جوق در جوق ان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں تو ان کا مورال بالکل گر گیا اور ہتھیار ڈالنے ہی میں عافیت سمجھی۔
دو عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ افغان طالبان کو یقیناً عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ایک تو اتنی بڑی طاقت کے خلاف مدافعتی جنگ کی کامیابی اور دوسرے تقریباً تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی بلا چون وچرا ان کے حوالے ہو جانا۔
افغان طالبان کا امتحان۔ شاید ایسی حکومت کو ہٹانا بہت مشکل کام نہیں تھا جس کی معیشت، فوج اور روزمرہ کاروبار حکومت کا زیادہ تر دارومدار بیرونی طاقت کے مرہون منت ہواور وہ ہو بھی بدعنوان۔
لیکن اب افغانستان جیسے ملک میں جو قومیتوں اور مسالک میں بٹا ہوا ہو وہاں ایک ایسی حکومت کی تشکیل جس میں تمام مکاتب فکر اور مختلف اقوام کے لوگ شامل کئے جا سکیں ایک نہایت کٹھن مرحلہ ہے اور اس میں کچھ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ پھر ایک موثر اور قوی حکومت کی بنیاد رکھنا جو ملک کے طول و عرض میں قوانین نافذ کر سکے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ اور یہ کچھ بیرونی اور اندرونی مخالفت کے باوجود کرنا ہو گا۔ خارجہ محاذ پر اپنے رویے اور وعدوں کی بنیاد پر اپنے آپ کو تسلیم کروانا اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنا بھی ایک کڑا امتحان ہو گا۔ کچھ ایسے وعدے جیسے اپنی سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا، خواتین کے کام کرنے اور بچیوں کی تعلیم کی ذمہ داری، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری وغیرہ کو بھی دنیا بہت غور سے دیکھے گی۔
طالبان کے دونوں نمائندے ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین نے بڑی جاں فشانی سے بار بار واضح کیا ہے کہ اس دفعہ طالبان اپنے بنیادی عقائد کو چھوڑے بغیر ایک ایسی حکومت عملی اپنائیں گے جو بالعمومم دنیا کے بیشتر ممالک کو قبول ہو۔ لیکن پرانی یادداشتوں کی روشنی میں یہ وعدے دنیا کو فوری طور پر مرعوب نہ کر پائیں گے۔ حالانکہ ایسے اشارے موجود ہیں جو طالبان کے قول و فعل کو قابل اعتبار بنا رہے ہیں۔ جو معاہدہ امریکہ کے ساتھ ہوا اس کو نبھایا، بغیر بڑے خون خرابے کے ملک کا کنٹرول سنبھالا، سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا وغیرہ وغیرہ۔
کابل کا ہوائی اڈہ غیر ملکیوں اور جو افغان بھی جانا چاہیں ان کے لئے کھلا رکھا۔ جو خواتین ٹی وی یا ریڈیو پہ کام کر رہی ہیں ان کو اپنا کام جاری رکھنے کا عندیہ دیا بلکہ اگر کچھ خواتین نے اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرنا چاہا تو نہ صرف ان کو اجازت دی بلکہ ان کی حفاظت پہ بھی مامور رہے۔ جھنڈے کے مسئلے پہ جلوس نکلے جن کو اکثر پرامن طورپر منتشر کیا۔ ان تمام امور پہ غور کیا جائے تو یہ طالبان اپنے رویے اور سوچ میں بیس سال پہلے والے طالبان سے بہت مختلف ہیں۔ بیشک ان کی بنیادی اسلامی سوچ میں کوئی فرق نہ آیا ہو لیکن تاویل یقیناً نئی ہے۔
لیکن طالبان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو جب بھی موقع ملا وہ ضرور ایسے رخنے ڈالیں گے جس سے آپس کی دشمنیاں سامنے آئیں گی اور ایک نئی سول جنگ کی سی کیفیت پیدا کی جائے۔ ڈس انفارمیشن کی مہم پہلے ہی شروع ہے۔ طالبان کو اپنے لیڈرز کی حفاظت کے اچھے انتظامات کرنے چاہئیں اور فالس فلیگ کارروائیوں پہ نظر رکھی جائے۔
پاکستان کے لئے مضمرات: اگر افغانستان امن اور سکون کا مسکن بن جاتا ہے جس کے اس دفعہ امکانات روشن ہیں تو وسط ایشیا، جنوبی اور مغربی ایشیا کے لئے آپس میں جڑنے اور مل کر ترقی کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آ سکتا ہے۔ چین اور روس کی بحر ہند تک ایک چھوٹے راستے سے رسائی ممکن ہو جائے گی۔ پی آر آئی اور سی پیک میں بہت تیزی آ جائے گی اور افغانستان صنعت اور تجارت کا مرکز بن سکتا ہے۔ کیا پاکستان اتنے بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے؟ اس سلسلے میں چاق و چوبند طریق پہ منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں بہت سخت معاشی مقابلہ ہو گا اور اگر ابھی سے کچھ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ لوگوں کی آمدورفت کو نہایت آسان بنایا جائے۔ میڈیکل کی سہولیات، تعلیم کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ بارڈر پہ مزید مارکیٹیں بنائی جائیں۔ انجینئرز، ڈاکٹرز، واپڈا، نادرا، سٹاک ایکسچینج اور فوج کے ماہرین مہیا کئے جائیں۔ بینک کھولے جائیں۔ تجارت، کنسٹرکشن کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مختصر یہ کہ ایک نیا جہاں وقوع پذیر ہوا چاہتا ہے۔ جو ہاتھ بڑھا کے تھام لے یہ جام اسی کا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain