تازہ تر ین

معصوم اور زُود فراموش

ڈاکٹر عاصم ثقلین
طالبان کو افغانستان کی حکمرانی مل جانے پرخوش ہونے والوں پر ہمیں افسوس ہے، دُکھی ہو جانے والوں پر زیادہ افسوس ہے۔کیونکہ اتنی آسان اور ایسی سہل منتقلی اقتدار پر ہم توصرف حیران ہوئے۔۔۔بلکہ ہم اس کیفیت کی تاثیر بڑھانے کے لیے اسے اپنے خاص سرائیکی لہجے میں بول کر کہنا چاہتے ہیں کہ”ہم تو ’حریان‘ رہ گئے۔“ اس حیرت کے کئی اسباب ہیں: مثلاًیہ کہ اگر افغان حکومت پچھلے پندرہ بیس سال سے امریکی ڈالروں کے سائے میں اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو بھی استحکام دے رہی تھی جس کے بل پر اُن کے بھگوڑے حکمران ہم غریبوں کو بھی تڑیاں لگا لیتے تھے تو اُس حکومت اور فوج کے سارے کس بل محض بندوقیں اُٹھائے طالبان کے سامنے کیونکر اور کیسے نکل گئے کہ وہ طالبان کا مقابلہ تو کیا اِن کے سامنے مزاحمت ہی نہیں کر پائے۔ لوگ یہ واقعہ حقیقت کی نگاہ سے نہیں بلکہ اپنے خاص نظریات اور مخصوص زاویہئ نظرسے دیکھ رہے ہیں اسی لیے تمام خوش ہونے والے صرف خوش اور سبھی دُکھی ہونے والے محض افسردہ و ترسیدہ ہیں۔
ہم نے بہت عرصہ تک اچھے طالبان اور بُرے طالبان کی اصطلاحات سنی اور بھگتی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ امریکی اثر و رسوخ کے بعد طالبان اب خود کئی گروہوں میں بٹ چکے ہیں جن میں سے اچھے طالبان پاکستان کے خیر خواہ اور بُرے طالبان کہیں امریکہ اور کہیں انڈیا کے باج گزار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ جیسا ”دیانت دار“ شاطر صرف چند معاہدوں کی پاسداری میں پورا افغانستان اچھے طالبان کو دے کر جا رہا ہے؟ خدا کرے ایسا ہی ہو۔۔۔۔! لیکن سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب بُرے طالبان یا یوں کہیں کہ پرو امریکہ طالبان اب کہاں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب سارے اچھے بُرے مل بیٹھے ہوں اور ہم اب چھانٹی کرنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ لگتا ہے کہیں اصل منظر تو شایدسامنے ہے ہی نہیں:
خود اپنی آنکھ ہی اپنے لیے غلاف سمجھ
جو دِکھ رہا ہے اُسے اسقدر نہ صاف سمجھ
کتنی سطحی بات ہے نا کہ امریکہ یہ جنگ ہار کے نکل رہا ہے۔ہم خوش گمان لوگ اس واہمے میں مبتلا ہیں کہ ایک ایک لمحے کی کیلکولیشن اور ایک ایک پینی کا حساب رکھنے والی وہ قوم پچھلے بیس برس مسلسل یہاں رہ کر اپنا نقصان کرتی رہی۔جھک مارتی رہی۔ اُس قوم کے ”بھولے بھالے“ تھنک ٹینکس نے نہ تو اپنے کوئی اہداف مقرر کیے نہ اُن کے حصول کے لیے کوشش کی۔
تو کہ معصوم بھی ہے! زود فراموش بھی ہے!
”الجزیرہ“ کے ایک مختصر سے جائزے کا سرسری نظارا ہی خاصا چشم کُشا ہے جس کے مطابق افغان جنگ میں دو لاکھ اکتالیس ہزار(241000) لوگ لقمہئ اجل بنے جن میں تین ہزار پانچ سو چھیاسی(3586) نیٹو کے اتحادی فوجی تھے۔انہی تین ہزار پانچ سو چھیاسی میں امریکی فوجیوں کی تعدادصرف دو ہزار چار سو بیالیس(2442) ہے۔ یعنی جنگ میں مرنے والے ہر ننانوے میں سے ایک آدمی امریکی تھا باقی اٹھانوے افغانی بشمول پاکستانی بھیڑ بکریاں المعروف آدم زادتھے۔لیکن کتنی ہوش مند ہے وہ قوم کہ جس کے افراد آج بھی چیخ کر اپنے صدر سے پوچھتے ہیں کہ تم نے یہ اٹھانوے ”بھیڑ بکریاں“ کاٹنے کے لیے ہمارا ایک امریکی آدمی بھی کیوں مروایا۔ہاں، مگر آپ اور میں مل کر خوش ہولیتے ہیں کہ امریکہ ذلیل و رسوا ہو کر افغانستان سے جارہا ہے۔ویسے امریکہ نے دس بارہ برس پہلے کیا یہ کہہ نہیں دیا تھا کہ وہ اور اس کے اتحادی 2020ء تک افغانستان سے (اپنے تمام اہداف کے حصول کے بعد) چلے جائیں گے۔اور کچھ عرصہ قبل قطر میں ہونے والے امریکہ افغان معاہدے کے تحت بھی اقتدارطالبان کو منتقل کرنا تھا۔! پھر بھی خوش ہو لیتے ہیں! آخر خوش ہونے میں کیا حرج ہے؟
ہمارے ہاں خوش ہونے والے لوگ تو وہ سادہ دل ہیں جنہیں افغانستان میں موجودہ دنوں میں آنے والی حکومت طالبان کے بجائے اسلام کا احیاء نظر آرہی ہے۔ ہمارے اس لٹے پٹے اور درماندہ کارواں کے لیے تو اب اسلام کے نام ہی کا سہارا باقی ہے۔ کہ اس ملک و قوم کی اصلاح و درستی کے باقی تمام سہارے اب حسرتوں میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں۔ بابائے اردو نے لکھا تھا کہ آدمی جب سب کچھ لٹا بیٹھے تو مذہب میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ہم بھی اس قول کے مطابق ہو چکے سو ہمیں کہیں اسلام یا مسلمانوں کی فتح کا ”جھاکا“ ہی پڑ جائے تو بغلیں بجانے لگتے ہیں۔مگرجب معاملے کی اصل تک پہنچ جائیں تو بغلیں جھانکنے بھی لگتے ہیں۔اس بار بھی ایسا ہی ہے کہ ہمارے لوگ طالبان کے افغانستان میں آنے پر خوش ہیں۔ خدا نخواستہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمارے یہی لوگ طالبان کو پاکستان میں افورڈ کرنے کے قابل ہیں۔اس لیے انہیں خوشی منانے دیجیے! کوئی فرق نہیں پڑتا!
باقی رہی ان لوگوں کی بات جو طالبان کے آنے پر دکھی ہیں اور بہت خوف زدہ بھی کہ یہ لشکر افغانستان کی فتح کے بعد پاکستان کا رُخ نہ کر لے تو ایسے خام خیال لوگوں کے لیے عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ ہمیں تو گزشتہ کل اور آج کے حالات میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ کل افغانی یہاں موجود تھے۔ طالبان ہمارے ہاں ہی سے تیار ہو کر جاتے تھے۔ ایسے میں ڈالروں کی چمک سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں اور اندھے ہو کر ہم خود کو غیروں کی ایک جنگ میں جھونک بیٹھے۔ ہمسائے کے گھر میں آگ پھینکنے والے دشمن کو اپنے پاس رہنے کی جگہ دے دی اور اسی ہمسائے کے لیے اپنے گھر کا دروازہ بھی کھولے رکھا۔ توپھر اس آگ کی چنگاریاں ہمارے گھر پر بھی گرتی رہیں۔لیکن اب تو حالات خاصے مختلف ہیں۔ اول تو یہ کہ اس بار سامنے آنے والے طالبان کتنے اصلی اور کیسے کھرے مسلمان ہیں اس کا فیصلہ چار چھ ماہ میں ہو جائے گا کہ یہ نئے حکمران ملا عمرکی طرح کچے گھر میں رہنے والے ہیں یااب انہیں بھی اغیار نے ہمارے ہاں کے ”مسلمان“حکمرانوں کی طرح محلّات اورڈالروں کی چکا چوند کا اسیرکر دیا ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain