وزیر احمد جوگیزئی
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے پہلی مرتبہ 1970ء میں الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا لیکن اس سے چند سال قبل ہی بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا اس سے پہلے بلو چستان صوبہ بھی نہیں ہو ا کرتا تھا۔اور اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان کو بطور صوبہ اتنا تجربہ نہیں ہے،پنجاب،سندھ،انگریز کے دور میں بھی صوبے ہوا کرتے تھے اور ان کے پاس ایک حکومتی نظام موجود تھا انتظامیہ موجود تھی،قانون ساز ادارے پہلے سے ہی وجود رکھتے تھے جبکہ بلوچستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔برطانوی دور میں قلات،خاران،مکران،لسبیلہ پانچ اضلاع تھے،ان میں ایک قبائلی پٹی بھی تھی اور سیٹلڈایریاز بھی موجو د تھے۔ایڈمنسٹریٹر ان علاقوں کو دیکھتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہی صورتحا ل رہی لیکن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کو صوبہ بنانے کے لیے آواز اٹھا کرتی تھی،اور کافی بھرپور آواز تھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا کہ صوبہ بننا تو ایک طرف تھا بلوچستان سمیت پورا پاکستان ون یونٹ بن گیا۔پھر اس کے بعد وہ دور آیا کہ جب ون یونٹ تو ختم ہو گیا اور بلوچستان کو صوبہ کی حیثیت مل گئی بلوچستان کی اپنی قانون سازی اسمبلی وجود میں آئی۔
سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے لیکن باقی ملک کی طرح بلوچستان کے حالات بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔مارشل لاء لگتے رہے،اسمبلی بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور بلوچستان میں بھی جمہوری نظام باقی ملک کی طرح مستحکم نہیں ہو سکا۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بات کی کہ باقی صوبے پہلے سے صوبے تھے ان میں ایک حکومتی مشینری اور اسمبلیاں پہلے سے موجود تھیں بلوچستان کو وہ تجربہ حاصل نہیں تھا جو کہ باقی صوبوں کو حاصل تھا۔لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے قانون ساز کسی بھی صورت میں باقی صوبوں سے کم نہیں ہیں اگر زیادہ نہیں ہیں تو برابر تو بالکل ہیں۔لیکن بلوچستان کی سیاست مقامی سطح پر کی جاتی ہے اور اس لحاظ سے بلوچستان کا صوبہ باقی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔یہاں پر مرکزیت بہت کم ہے، کم از کم 100یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں موجود ہو ں گی اتنی زیادہ تعداد میں مقامی جماعتیں ہیں کہ ان کے نام بھی یا د رکھنا مشکل ہے اور انتخابات میں انھی جماعتوں کے ایک ایک دو دو ارکان منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں اور پھر اس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل اور نوکریوں کا بھی بٹوارہ کر لیا جاتا ہے اور سب کچھ تقسیم ہو جاتا ہے۔یہ میرا پختہ یقین ہے کہ بلوچستان کی قسمت اس وقت تک نہیں کھل سکتی ہے اور اس وقت تک بلوچستان حقیقی معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہو کر ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں آکر سیاست نہ کریں اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم نہ کریں۔پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو بلوچستان میں سیاسی طور پر محنت کرنی چاہیے اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی بلوچستان میں کام کریں تو اپنی حکومت بنا سکتی ہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی بنا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس حوالے سے بہت کام کیا تھا اور 77ء کے انتخابات سے قبل انھوں نے اس حوالے سے کافی اقدامات اٹھائے تھے لیکن پھر 77ء میں مارشل لا ء لگنے کے بعد سب کچھ ضا ئع چلا گیا۔لیکن بہر حال اگر بلوچستان کو باقی ملک کے برابرلانا ہے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔بد قسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے کوئی ایسا لیڈر نہیں آیا، جس نے کہ ژوب،قلعہ سیف اللہ اور دیگر علاقوں میں جاکر لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے قائم کیے ہوں،لوگوں کا اعتماد جیتا ہو،اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگ آج تک شہید ذولفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی اتنی بڑی نہیں ہے اس لیے بلوچستان میں اچھا کام کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے اگر کوئی واقعی نیک نیتی کے ساتھ ایسا کرنا چاہے تو۔بلوچستان میں ترقی کے تمام وسائل موجود ہے جو کہ کسی بھی علاقے یا خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہو تے ہیں۔بلوچستان میں اچھی زراعت ہے،معدنیات ہیں سیاحت کی بہت صلاحیت موجود ہے۔ شکار گاہیں بنائی جاسکتی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس سے کہ بلوچستان کو ترقی دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرمایہ کاری چاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ سرمایہ کاری لائے اور بلوچستان پر پیسہ خرچ کیا جائے تو بلوچستان بھی باقی صوبوں کے برابر آسکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بلوچستان ہمیشہ سے ہی ایک محروم صوبہ تھا، برطانوی دور میں بلوچستان میں تعلیم کا نظام بہت اعلیٰ تھا بہت ہی اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن جب بلوچستان صوبہ بنا تو اس کے بعد اپنائی گئی پالیسوں نے صوبے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ٹیچرز اور پولیس والوں کو نکالنے سے نظام تباہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان میں تعلیم کی شرح کم ہے۔بلوچستان پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور مرکز کی جانب سے سخت گیر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اگر اس قسم کے حالات ہوں جیسا کہ بلوچستان کے حالات ہیں تو اس قسم کے حالات کے ملک دشمن اور منفی عناصر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر آزادی سمیت ہر قسم کی آوازیں اٹھتیں ہیں۔بیو کریسی سے یہ توقع کرنا کہ وہ معاملات کو سنبھال سکتی ہے بالکل غلط ہے،بلوچستان کو سیاسی اونر شپ کی ضرورت ہے۔کراچی اور لاہور سے سرمایہ کاروں کو بلوچستان کا رخ کرنا چاہیے اور اور سرمایہ کاری کرنی چاہیے اس سے بلوچستان کے مسائل کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭