تازہ تر ین

ہم کہاں کھڑے ہیں

کرنل (ر) عادل اختر
ایک عالمی تنظیم کا نام ہے ورلڈ جسٹس اینڈ رول آف لاء۔ اس تنظیم نے دنیا کے 139 ممالک میں ایک سروے کرایا ہے جس میں انصاف، امن و امان، کرپشن، بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ ہم اس سروے کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ 139 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 130 ہے۔ سیکورٹی کے معاملات پر پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے یعنی پاکستانی شہری بہت غیر محفوظ ہیں۔ کرپشن کے معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ سرکاری فنڈز میں کس قدر خوردبرد ہوتی ہے، وہاں کا اعلیٰ طبقہ یعنی اشرافیہ جس میں پارلیمینٹ کے ممبران، اعلیٰ افسران، جرنیل، عدلیہ کے جج صاحبان کا طرز رہائش اور معیار زندگی کیا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے۔کرپشن میں پاکستان کو ریڈ زون میں رکھا گیا ہے۔ حکومتی شفافیت جاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت اپنے عوام کو کتنی معلومات فراہم کرتی ہے اور کتنی معلومات ان سے چھپاتی ہے۔ کوئی حکومت اپنے عوام کو کتنے بنیادی حقوق دیتی ہے اور کتنے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ بنیادی حقوق کے سلسلے میں پاکستان کا نمبر 126 ہے۔
ضابطوں کا نفاذ۔ اس سلسلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ قانون پر کتنی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ان میں قانونی اور انتظامی ضابطے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا نمبر 123 ہے۔
انصاف (سوشل جسٹس)۔ دیکھا جاتا ہے کہ شہریوں کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے کس قدر پرسکون ماحول میسر ہے۔ انصاف و سستا اور قابل رسائی امیدوار۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ اس کا کم سے کم چودہ سال کی تعلیم اور سولہ سال کا علمی یا پروفیشنل تجربہ ہو۔ (پروفیسر۔ ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکیل، ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسرہو)امین صالح ہو۔
جس پارلیمینٹ کے موجودہ ممبران کی مالی، اخلاقی اور سیاسی حالت شرمناک ہو وہ عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں ہو سکتی…… اگر پارلیمینٹ کے ممبر صالح اور دانشور ہوں گے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں گے تویقین ہے کہ وہ بہت سی خرابیوں پر کنٹرول کر لیں گے۔ عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی، ذلت اور زوال کا سفر رک جائے گا۔
ملک میں لاکھوں یا کروڑوں، صالح اور سمجھ دار لوگ موجود ہیں۔ خدارا اتنا ظلم نہیں ہے کہ بائیس کروڑ میں سے بائیس لاکھ صالحین بھی نہ بستے ہوں۔ ہماری بقا امریکہ یا روس کے نہیں خود ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ریاست مدینہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔
کیا جانتے بوجھتے ہم اپنے وطن کو تباہ کرتے رہیں گے۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے۔ دس بارہ سال پہلے ہمارے ملک کے شہر کراچی میں ایک دیانتدار میئر نعمت اللہ خان آیا تھا۔ اس نے کراچی کانقشہ ہی بدل دیا۔ لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ اگر ملک کی تقدیر پانچ سو صالح اور لائق افراد کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو حالات کیوں نہیں بدل سکتے۔ کیا پاکستان میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اصلاحات کی غرض سے کمیشن بنے۔ بڑے بڑے عاقلوں اور تجربہ کار افسروں نے تجاویز دیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل درآمد ہو جائے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں لیکن سرکاری افسر خاص طور پر پولیس افسران اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح ان کے اختیارات اور رشوت میں کمی آ جاتی ہے جو انہیں منظور نہیں۔ حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہے کہ اس میں ان اصلاحات کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
پاکستان میں صادق اور صالح لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ لوگ صدق دل سے نظام مصطفےٰؐ یا ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس میں مزاحم بھی نہیں ہے۔ اگر مزاہم ہیں تو ہمارے کرپٹ طبقات جو ظالمانہ طریقوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور بہت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کروڑوں روپے کے محلات، گاڑیاں، گھڑیاں، آرائش کا سامان، نوکر چاکر بے شمار ہیں۔ وہ نہ تو ریاست مدینہ کا نظام پسند کرتے ہیں۔ نہ ریاست ماسکو کا۔ نہ ریاست واشنگٹن…… انہیں پاکستان کا موجودہ نظام (انارکی) ہی پسند ہے۔
کیا اس لوٹ کھسوٹ اور انارکی کا کوئی حل ہے۔ جی ہاں ہے۔ پاکستان کے ذی شعور عوام، سول سوسائٹی، دانشور، وکیل، صحافی، اساتذہ، پاکستان کے طاقتور اور ذمہ دار اداروں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کریں کہ ہمارے ملک کو بچا لو۔ اس کے لئے آئین کی ایک مشق میں معمولی سا اضافہ کر دیا جائے۔ امیدوار پارلیمینٹ کی اہلیت کے خانے میں یہ اضافہ کر دیا جائے (1) امیدوار متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کے پاس صرف ایک مکان اور ایک بیوی ہو۔
سرکاری افسروں کا عمل دخل ہے یا نہیں۔ نظام غیر جانبدار ہے یا نہیں۔ پولیس، وکیل، جج، جیلر کے افسر اور پورا نظام انصاف کی فراہمی میں انصاف کی فراہمی میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں نمبر 108 ہے۔ یہ خبر پڑھ کر احساس ہوا کہ ایمان اور روشن ضمیر رکھنے والے افراد۔ دنیا کے ہر معاشرے اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ سروے پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم کس قدر بدنصیب اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ بے بسی اور مظلومیت موجودہ حکومت کا تحفہ ہے نہ پچھلی حکومتوں کا۔ یہ نصف صدی کا نہیں کئی صدیوں کا قصہ ہے۔ اس خرابیئ حال کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے جو لوگ ایمان اور ضمیر کی دولت اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام میں سے کتنے لوگ ہوں گے…… ہر شخص خود اندازہ لگا سکتا ہے۔
جو ظالم اور بے حس حضرات ملک پر مسلط ہیں۔ ان کی تعداد چند ہزار یا چند لاکھ ہوگی۔ بائیس کروڑ عوام ان چند لاکھ افراد کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو بھی مجرموں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ ایک دن کسی شاہراہ پر ایک عورت ریپ ہو جاتی ہے۔ فرض کریں ظالم پکڑا جائے۔ سزا ہو جائے۔ پھر بھی دوسرے دن دوسرا کیس اور تیسرے دن تیسرا کیس رپورٹ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain