زیان تعمیر
16اکتوبر2021 کو تقریباً آدھی رات کے وقت پاکستان نیوی کے اینٹی سب میرین ہوائی جہازوں میں سے ایک نے پانی میں ایک مبہم سی شہ کا سراغ لگایا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق اس رات وہ ہوائی جہاز اپنی معمول کے گشت پر تھا۔ اس مہم سے نشان شہ کا تعاقب کیا گیا اور اسے ہوائی جہاز پر موجود مختلف سنسرز سے دیکھا گیا۔ ایکٹو،پیسوو اور بصری تلاش نے یہ بات واضح کر دی کہ یہ ایک بھارتی کلویری کلاس آبدوز ہے۔ بحری زبان میں آبدوز کو دیکھ کر پہچان لینے کو certain submarine contact یا عرف عام میں certsub کہا جاتا ہے۔ اس طرح کا واقعہ تیسری بار ہوا ہے، پہلی بار 14 نومبر2016 کو ایسا واقعہ ہوا تھا جب پاک بحریہ کے لانگ رینج میری ٹائم پٹرول ہوائی جہاز نے بھارتی 209کلاس (جرمنی کی تیار کردہ) آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس سراغ لگانے کو بھارت نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
4مارچ2019کو پلوامہ معاملے کے دوران، پاک بحریہ کے پی تھری سی اورین ائیرکرافٹ نے مکران کوسٹ کے قریب کراچی سے دور بھارت کی کلویری کلاس آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس کے خاکے، پیری اسکوپ اور دیگر حرکات سے یقین ہوگیا کہ وہ بھارتی آبدوز ہے۔ اگرچہ بھارت نے پاکستان کے اِن دعووں کو میڈیا کے ذریعے مسترد کر دیا لیکن جب وہ شکستہ آبدوز 2سے3میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھر واپس گئی اور جب ممبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوئی تو بھارتی بحریہ کے سب میرین کمانڈر کو فارغ کر دیا گیا۔ اکتوبر16 کو سراغ لگائی جانے والی آبدوزکے دعوؤں کو بھی بھارتی میڈیا نے یہ کہتے ہوئے مسترد کیاکہ یہ دعوے غیر تصدیق شدہ ہیں جب کہ دفاعی ذرائع نے ابھی اس موضوع پر کوئی رائے نہیں دی ہے۔
آبدوز کا پکڑا جانا اس وقت ہوا ہے جب کہ بھارتی فوج اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اپنے جنگی کمانڈاینڈ کنٹرول طریقہ کار کی تنظیمِ نو پر بحث کر رہی ہے۔ ایک میری ٹائم تھیٹر کمانڈ بنانے کی تیاری ہے جس کا بنیادی مقصد بحیرہ عرب کے معاملات خصوصا پاکستان پر نظر رکھنا سمجھا جا رہا ہے۔ حال ہی کی آپریشنل ریکانفیگریشن کے علاوہ، بھارتی فوج پچھلے بیس سالوں میں کئی دفاعی اور آپریشنل نظریوں پر عمل درآمد کر کے انھیں چھوڑ چکی ہے۔ مارچ 2020میں زمینی جنگ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں بھارتی آرمی چیف ایم ایم نروا نہ کے خطاب کے مطابق اِن میں سندر جی کابیک وقت اور گہرے دھچکے سے کولڈ اسٹارٹ اورImprovised Proactive Ops سے لے کر متحرک ریسپانس کے نظریے شامل ہیں۔
بھارت کی تھیٹر کمانڈز، امریکی گولڈ واٹر نکولس اسکیم کی طرز پر جوائنٹ ملٹری کمانڈز ہوں گی جنھیں تھری اسٹار فوجی افسران کمانڈ کریں گے۔ اِن جغرافیائی جنگی کمانڈز کا مقصد تمام ذرائع کو استعمال کرنا ہے اور بھارت کی سلامتی اور دفاعی مفادات کو لاحق کثیر الجہتی خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بھارت کی دفاعی کمیونٹی یقین رکھتی ہے کہ چین اور پاکستان دونوں اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں لہٰذا یہ ہی جوائنٹ تھیٹر کمانڈز بنانے کا جواز بھی ہے۔ آبدوزوں کی تعیناتی میری ٹائم تھیٹر کمانڈ کے تحت ہو گی جسے بھارتی بحریہ کے ایک سینیئر رینک کے افسر کمانڈ کریں گے۔
بھارتی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت پچھلے کچھ سالوں میں سخت جانچ پڑتال میں رہی ہے۔ پلوامہ کے بعد ہونے والی سرجیکل اسٹرائیک کے جواب میں پاکستان ائیرفورس نے آپریشن سوئیفٹ ریٹورٹ کیا اور دو بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، جس پر بھارت نے معاملہ نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 2016میں اڑی کے واقع کے بعد بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہو سکا حالاں کہ اس اسٹرائیک کے حوالے سے کافی جشن بھی منایا گیا۔ بھارت کا پاکستان کے ان علاقوں، جہاں اس کے حساب سے بھارت مخالف دہشت گرد پناہ لیے ہوتے ہیں، پر حملہ کرکے اسے نیونارمل کرنے کے مقاصد ناکام ہوئے کیونکہ پاکستان نے جارحانہ جواب دینے سے گریز نہیں کیا۔
پاکستانی پانیوں میں اور اس کے قریب بھارتی آبدوزوں کی تعیناتی کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ یہ چھپے پلیٹ فارمز دفاعی اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم معلومات جمع کر سکتے ہیں جنھیں بعد میں ملٹری آپریشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیزل الیکٹرک آبدوز کا امن کے وقتوں کا بنیادی مشن معلومات حاصل کرنا ہی ہوتاہے۔ ان آبدوزوں کا ایک اور منفرد فائدہ ان کی کم گہرے پانی میں رہنے کی صلاحیت ہے کیوں کہ ساحل کے قریب کم گہرائی میں موجود رہ کر یہ کشیدہ صورتحال کے دوران مرچنٹ جہازوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
کسی بھی جدید بحری فوج کے لیے بھی پانی میں چھپی آبدوز کا سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بحیرہ عرب میں یہ کام اور مشکل ہو جاتا ہے جہاں گہرائی اورحرارت کا تناسب اور ساتھ ہی آواز کی لہروں کا بہا آبدوز کو چھپے رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ البتہ قسمت سے کوئی موقع ہاتھ لگ سکتا ہے جب آبدوز کا سراغ لگانا اور اسکا پیچھا کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اس کے لیے مکمل فوکس، چوکنا رہنا اور بہترین پیشہ ورانہ مہارت درکار ہے۔ پیری اسکوپ گہرائی پر موجود آبدوز ریڈار کو ایک بہت ہی چھوٹا Cross Sectionalایریا دیتی ہے جس کے ذریعے اس کا سراغ لگایا جاتاہے۔
بھارتی بحریہ کی آبدوز آپریشنز کی تاریخ کئی حادثوں اور نقصانات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پاکستانی آن لائن میگزین، میری ٹائم اسٹڈی فورم کے مطابق بھارتی آبدوز سندھوگھوش 2008 میں حادثے کا شکار ہوئی، سندھودرکشک پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا اور 2013 میں اس میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ ڈوب گئی، شان کش پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا، سندھو رتنا پر 2014میں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی اور آریہانتھ میں بھی 2017 میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ 9مہینے تک کار آمد نہ رہ سکی۔ پیری اسکوپ گہرائی پر آبدوز پکڑے جانے کی وجہ آبدوز کے کچھ تکنیکی مسائل بھی ہو سکتے ہیں ورنہ ایک آبدوز کا کمانڈر دشمن کے پانیوں کے قریب کبھی بھی نظر نہیں آنا چاہے گا۔ ناکامیوں کا سلسلہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسے حادثے بھی رونما ہوئے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں کیے گئے اور مجموعی طور پریہ بھارتی بحریہ کے ناکام آبدوز آپریشنز کے ریکارڈ کی نشاندہی ہے۔
بھارتی آبدوزوں کے آپریشنل حالات کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی آبدوزوں کولے کر مستقبل میں ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے تو پاکستان کو جارحایہ ردِ عمل کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ بحیرہ عرب پر حکمرانی کرنے کی بھارتی خواہش آبدوزوں کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر تو ممکن نہیں ہے۔ آبدوزوں کا سراغ لگ جانا اور ساتھ ہی بھارت کے اندر یورینیم کی چوری کے مختلف واقعات بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کے لیے معاملات مشکل بنا رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ تھیٹر کمانڈز کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف اپنے آپریشنل انتخابات پر نظرِ ثانی کریں۔ بھارتی بحریہ کے لیے یہ امر قابلِ غور ہونا چاہیے کہ جہاں ہو بیلیسٹک میزائل لے جانے والی نیوکلئیر آبدوزیں چلانے کا ارادہ کر رہے ہیں وہاں انھیں ایک ایسی بحری فوج نہیں بننا چاہیے جسے آئے دن certsubکا سامنا کرنا پڑتا ہو۔
(کالم نگار لکھتے ہیں)
٭……٭……٭