تازہ تر ین

بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی ایک فیشن

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی زیر بحث تینوں خصوصیات بنیادی طور پر نہائیت ہی منفی اقدار اور رویہ اور کردار کی غماز ہیں۔ یہ اقدار شخصی طور پر یا اجتماعی طور پر معاشرے یا کسی گروپ یا کسی قسم کے قومی انحطاط کی علامت بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ اقدار انفرادی حیثیت میں یا اجتماعی مرض کے طور پر پر بھی پائی جا سکتی ہیں۔ترقی یافتہ اقوام یا معاشرے کافی حد تک ان منفی اقدار کو اپنے اجتماعی کردار سے زیر نگوں کر لیتے ہیں مگر ایسے ممالک اور معاشروں میں اجتماعیت اور انفرادی ذمہ داری کا احساس ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اجتماعیت اور مثبت سوچ کا ہونا اور بدرجہ اتم ہونا معاشروں کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
جمہوریت مادر پدر آزادی اور کرپشن کی کھلی چھٹی کا نام نہیں بلکہ یہ اجتماعی اور انفرادی احساس ذمہ داری کا ثبوت ہونا چاہئے -کسی بھی قوم میں لیڈرشپ کے فرائض ادا کرنے والے گروپ یا انفرادی خدمات انجام دینے والوں کے لئے تین بنیادی تصور یاconcept نہایت ہی اہم بلکہ لیڈرز کی موجودگی کے پیش رو یا prerequisite ہوتے ہیں:
مشن یا ذمہ داری- وسائیل، جو اس مشن یا کام مکمل کرنے لئے لیڈر کو دئے جاتے ہیں اور تیسرا اور سب سے اہم جز ہے احتساب/accountably یا ذمہ داری۔
ہمارے ہاں سب لوگوں کو افسر بننے یا لیڈر بننے کا بہت شوق ہے مگر وہ لیڈر ہو نے کے تقاضے نبھانے کی قابلیت اور احساس ذمہ داری سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے سے جڑے انعامات اور ہم حقوق تو بڑے دھڑلے سے انجوائے کرتے ہیں مگر نہ تو وہ اپنی ذمہ داری یا فرض نبھاتے ہیں اور نہ عوام جن کو انہوں نے serve کرنا ہوتا ہے ان کی کسی قسم کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے اوپر والے معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اپنے آپ کو ملازم کم اور افسر زیادہ تصور کرتے ہوئے عام لوگوں سے نہ صرف دوری اختیار کرتے ہیں بلکہ عوام کو اپنی خدمت پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرے کے نچلے طبقوں سے بہت کم لوگوں کو افسری کرنے یا سیاسی لیڈر بننے کا موقعہ ملتا ہے مگر جب ان کو موقعہ ملتا ہے تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے اور اس طرح وہ بھی اپنی گزشتہ معاشی محرومیوں کا پورا مداوا عوام کو مزید لوٹ کر کرتے ہیں۔ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے رویئے ایک ہی جیسے ہیں۔ سب مل کر یا اکیلے اکیلے سرکاری وسائل کو خوب لوٹتے ہیں اور جو وسائل عوام کی صحت اور تعلیم اور ان کو ہنرمند بناے پر خرچ ہونے تھے ان کو نہ صرف فضول خرچی کی نذر کیا جاتا ہے بلکہ قومی خزانے کا بھاری نقصان بھی ہوتا ہے۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت سارے وہ سرکاری ادارے جو اپنی افادیت وقت کے ساتھ کھو چکے ہیں اور سراسر نقصان میں چل رہے ہیں اور وہ تکنیکی اور صنعتی لحاظ سے قابل درستگی نہیں رہے مگر ان کے ملازمین کو اسی طرح مفت میں تنخواہیں دی جارہی ہیں اور ان اداروں کا مالی نقصان بھی حکومت اپنے مزید وسائل لگا کر برداشت کرتی ہے۔ ان اداروں کو یا تو نجی شعبے میں منتقل کیا جانا ضروری ہے یا پھر ان کو بند کر دیا جائے اور ان میں سے جو وسائل نکل سکیں ان کو کسی اور مصرف میں لایا جائے۔
بجلی اور گیس کے محکموں میں بھی پیسے کی لوٹ مار جاری ہے۔ بجلی کی چوری ایک بہت بڑے سکیل پر جاری ہے۔ ملک کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں یہ چوری انتہائی حدود پار کر چکی ہے۔ اس چوری کو روکنے کے جدید طریقے استعمال میں لائے جانے ضروری ہیں۔
اوپر دی گئی چند مثالیں ہمارے معاشرے میں جاری بے ایمانی اور کام چوری کی زیادتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ کام کی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کام کے اوقات کار میں اپنے ذاتی کام کرنے نکل جانا یا موبائل پر فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا اور چائے پر معمول سے زیادہ وقت لگانا۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ وقت لگانا بھی اچھے work ethics کی علامت نہیں ہے۔
جو سرکاری افسر یا ملازم، اس کا تعلق کسی بھی گریڈ یا طبقے سے ہو اپنے کام کی جگہ یا دفتر وقت مقرر پر نہیں حاضر ہوتا وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح جو افسر یا ملازم وقت مقررہ سے پہلے اپنے کام سے چھٹی کر جائے وہ بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہے۔ ہر بندہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور جو لوگ ان کے کام کے دائرہ کار میں آتے ہیں ان کو بھی ان ورک اخلاقیات کا پابند بنائے اور اگر وہ یہ اہتمام نہیں کرتا تو وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہے۔ بہت سارے لوگ ہمارے معاشرے میں یا تو غربت کا بہانا کر کے یا اپنے پاس ہنر نہ ہونے کا بہانا کر کے کام چوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے ملک میں بھیک مانگنا اور ہڈ حرامی عام ہے۔ کسی چوراہے، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، ٹریفک لائیٹ حتیٰ کہ ایئر پورٹس پر بھی پاکستان کا پہلا تاثرجو یہ بھکاری ملک سے باہر سے آنے والے افراد کو دیتے ہیں وہ نہائیت ہی منفی ہوتا ہے۔ کیا ہماری ساری قوم بھیک مانگنے والوں کی ہیں؟ دراصل بعض حکومتوں نے ملک کا پیسہ بینظیر اِنکم سپورٹ اور احساس پروگرام وغیرہ کی مد میں جہاں بہت سارے مستحق لوگوں کو دیا ہے وہیں ایک بہت بڑی تعداد غیر مستحق اور ہڈ حرام لوگ جو پیشہ ور کام چور اور بھکاری ہیں ان میں بھی غیر ضروری بانٹا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی قیادت میں بے نظیر اِنکم سپورٹ فنڈ کا جو تجزیہ ہوا اس میں لاکھوں ایسے سیاسی اور غیر مستحق لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ احساس پروگرام اور بے نظیر فنڈ کی رقم کو ملک میں بھکاری پن اور غربت کے خاتمے اور صرف بوڑھے لوگوں کی کفالت پر استعمال کیا جائے۔ بھیک مانگنے کو ملک میں جرم قرار دیا جائے اور پناہ گاہوں کو صرف غریب اور بوڑھے افراد کی کفالت کے لئے استعمال کیا جائے۔ ملک کے اندر skill development یا ہنر مندی کی تربیت اور تعلیم کو لازم قرار دیا جائے۔ ہر شخص میٹرک تک تعلیم حاصل کرے اور میٹرک کا سرٹیفکیٹ اسی کو جاری ہو جو کم از کم ایک ہنر میں طاق ہو۔ یہ ہنر میٹرک کے سلیبس کا حصہ ہوں۔ ہنرمند افرادکو ان فنڈز سے قرض دیا جائے تا کہ وہ کوئی معقول کام کر سکیں۔ تقریبا پانچ سے سات سال میں بذریعہ سکل یا ہنر کی تعلیم سے نہ صرف ان لوگوں کو ملک سے باہر بھی اچھی تنخواہیں اور نوکریاں ملیں گی بلکہ بے روزگاری کو کافی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
معاشرے سے بھکاری پن اور غربت کا خاتمہ کرنا ضروری ہے اگر ہم نے اپنے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور سیاسی لوگوں، دونوں کا رویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے نچلے لیول سے لوگوں کوبحال کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اوپر والے یا حکومتی الیٹس elites کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔
تربیت تعلیم کا ایک بہت ہی اہم جز ہے اور کئی ملکوں میں تو تعلیم کے پہلے کچھ سال کتابوں اور امتحانوں کی بجائے صرف اور صرف تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ تربیت میں سڑک پار کرنے کے طریقے سے لیکر کھانے کے آداب اور بولنے اور دوسروں سے بات چیت کا طریقہ بھی سکھایا جاتاہے۔ بنیادی معاشرتی یا مذہبی اخلاقیات بچوں کو سکھانا بہت اہم ہے تاکہ وہ ملک کے اچھے شہری بن سکیں۔ہمارے ملک میں سرکاری سکولوں کا ایک بہت بڑا جال بچھا ہوا ہے مگر بتدریج انحطاط کی وجہ سے اس سکول سسٹم نے اپنا مقام کھو دیا ہے۔ پہلے پانچ سال کی تعلیم کے لئے صرف خواتین اساتذہ کی خدمات لی جائیں۔ اور بنیادی اخلاقیات اور دین کے بنیادی اصول پڑھائے جائیں۔ میٹرک تک باقی پانچ سال یکساں نصاب میں سائنس کی تعلیم دی جائے اور ہر طالب علم ایک ہنر میں ماہر بنے۔ تمام بچوں کو مفت تعلیم و تربیت یقینی بنانا ہو گا۔ بلکہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کی رجسٹریشن یونین کونسل یا جو بھی ریکارڈ رکھنے والی اتھارٹی ہو اس کے ساتھ ساتھ نزدیکی سکول میں بھی بچے کی رجسٹریشن ہو جائے اور جیسے ہی وہ بچہ پانچ سال کی عمرتک پہنچے سکول اس کو خود اپنے پاس داخلہ دے کر کلاسوں میں بٹھائے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ:
ہم اپنے معاشرے کی ترقی کے لئے دن رات اپنے فرائض کو ایمانداری اور اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق محنت سے ادا کریں گے۔ہم خواہ پیدل ہوں سائیکل پر ہوں موٹر سائیکل پر ہوں یا کار یا کسی بھی گاڑی میں ہوں ہم سب ٹریفک کے قوانین کی مکمل پابندی کریں گے اپنے ہاتھ پہ رہنا اور رفتار کی پابندی اور سڑک کی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے
نہ کسی کو رشوت دیں گے اور نہ رشوت لیں گے۔ اپنے رزق حلال پر قناعت کریں گے اور اپنے بچوں کو حرام رزق کی ایک رتی بھی نہیں کھلائیں گے اور نہ خود کھائیں گے۔
بھیک مانگنا اور پیشہ ور بھکاری ہونا ایک معاشرتی لعنت ہے اور اس کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی ضروری ہے اور پیشہ ور بھکاریوں کو کسی قسم کی امداد یا رقم دینا ہر لحاظ سے نا جائز ہے۔ اس سے اس جرم اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے جرائم جن میں معصوم بچوں کا اغوا بھی شامل ہے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے اور ہر طرح کے جرائم جو ہمارے علم میں آئیں ان کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کریں گے۔اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا نہ صرف گھر پر بندوبست کریں گے بلکہ ان کو بر وقت سکول بھجوائیں گے اور ان کے اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔نہ صرف اپنے بچوں اور خود کو منشیات سے دور رکھیں گے بلکہ معاشرے کو اس لعنت سے دور کرنے کے لئے حکومتی اور معاشرتی لیول پر اجتماعی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain