سجادوریا
راجہ علی اعجاز پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بہترین،تجربہ کار اور مستعد و متحرک افسر ہیں۔ انتہائی تعلیم یافتہ اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں، ان کا مدلل اور دھیمہ انداز گفتگو ان کی شخصیت کو اور بھی دلکش بناتا ہے۔وہ ایک خالص کییریئر ڈپلومیٹ ہیں۔راجہ علی اعجاز سعودی عرب کے دارالحکومت ’ریاض‘ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں،انہوں نے جنوری ۲۰۱۹ء میں سفارتخانہ پاکستان کا بحیثیت سفیر چارج سنبھالا۔ سفارت کے میدان میں وسیع تجربہ رہا ہے،ریاض میں سفیر ِ پاکستان بننے سے پہلے وہ نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے کئی سال مشکل محاذ یعنی کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں بھی کام کیا،وزارت خارجہ میں ڈی جی یواین کے طور پر بھی کام کیا، لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں بھی خدمات سرانجام دیں،میکسیکو میں پاکستان ایمبیسی میں بھی کام کیا۔ اس وقت سعودی عرب میں سفارتی میدان میں کھیلنے والے کپتان اور ٹیم دونوں نئے ہیں،ظاہر ہے ان کو مسائل،کمیونٹی اور سعودی قوانین کو سمجھنے میں وقت لگے گا،نچلی سطح پر بھی مقامی معاونین کو بدلا گیا ہے،جو کہ وقت کی مناسبت سے ٹھیک فیصلہ نہیں ہے،میری نظر میں وزارتِ خارجہ اور حکومت پاکستان کو سوچنا چاہئے اور سفیر پاکستان جنرل بلال اکبر صاحب کے ساتھ تجربہ کار ٹیم کو بھیجا جائے جو سفارتکاری میں تجربہ کار ہو۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں سعودی عرب برادر ملک ہے،پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کام کرتی ہے،ہزاروں فیمیلیز یہاں قیام پذیر ہیں،تین ملین کے قریب پاکستانی یہاں رہتے ہیں،پاکستان ایمبیسی اسکولز کا نیٹ ورک بھی کام کررہا ہے،ریاض میں سفارتخانہ ہے،جدہ میں قونصلیٹ ہے،لیکن کئی دور دراز کے علاقوں میں مستقل قونصل خانے نہیں ہیں بلکہ ایمبیسی کے اہلکار ہفتہ میں ایک بار عارضی عمارتوں میں آتے ہیں،کمیونٹی کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ایسٹرن ریجن میں کوئی مستقل عمارت نہیں ہے،الخبر کے تمیمی کمپاوٗنڈ میں عارضی بندوبست کیا گیا ہے،جہاں سفارتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اوور سیز پاکستانیوں کا احساس ہے،لیکن سعودی عرب میں موجود پاکستانی اس احساس کو اپنے لئے بالکل بھی محسوس نہیں کر رہے۔سعودی قوانین کے مطابق اقاموں کی تجدید ایک بڑا مہنگا کام بن چکا ہے،جس کی وجہ سے ہزاروں مزدور اقامے تجدید نہیں کرواتے اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں،جب پکڑے جاتے ہیں تو سفارتخانے پر بوجھ بن جاتا ہے کہ جلدی ان کو پاکستان بھیجا جائے۔مجھے تسلیم ہے کہ سفارتخانے میں نچلی سطح پر سب ٹھیک نہیں ہے،سفارتی اہلکار،سُستی اورٹرخاؤ پالیسی کا سہارا لیتے ہیں،جو کام جلدی ہو سکتا ہے،اس کو لٹکاتے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی،سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہے،سیاسی جماعتیں ان کے ورکرز،روایتی اختلافات کا شکار ہیں،سیاسی گروہ،سیاسی بنیادوں پر سفارتخانے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ایک گروہ پیچھے رہ گیا تو سوشل میڈیا پر اس کا اظہار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔سوشل میڈیا آج کے زمانے میں ایک بڑی طاقت ہے،میں حیران ہوتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی بنیاد پر سابق سفیر راجہ علی اعجاز کو واپس بلایا،انکے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔کیا نکلا؟ کوئی ثبوت ملا؟
میں سمجھتا ہوں کہ سفیروں کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں،افسران کی پوزیشنز بدلتی رہتی ہیں۔جس ڈھنگ سے ان کو میڈیا پر نشر کیا گیا،یہ صرف اور صرف سستی شہرت کا شاخسانہ لگتی ہے۔اِدھرسعودی عرب سے سفیر کو واپس بلانے کا علان ہوا،اُدھراسی سفیر کے ساتھ سیلفیاں بنوانے والے بڑھکیں مارنے لگے،یہ ہم نے کروایا ہے،نچلی سطح پر ایمبیسی اسٹاف کو باقاعدہ دھمکیاں دی جانے لگیں کہ دیکھو ہم نے سفیر بدلوا دیا ہے،تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو؟
سابق سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز کی خدمات قابلِ تحسین ہیں،بہت ہی قلیل عرصے میں بڑے موثر انداز میں وہ سعودی حکومت کے ساتھ سفارتی اور ذاتی سطح پر با اعتماد تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے،انہوں نے شدید دباوٗ اور بحران میں بھی مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا اور سفارتی خدمات کامیابی کے ساتھ سر انجام دیں۔انہوں نے کووڈ۱۹ کے لاک ڈاوٗن کے دوران کمیونٹی کے لئے جو کام کیا،اس کے اعتراف میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تعریفی خط لکھا،اپنی کوششوں سے پی آئی اے کی پروازوں کو بحال کرانے پر پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک نے خط لکھ کر شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔جب وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے حوالے سے بیان دیا،سعودی عرب کی مختلف ائرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو گراوٗنڈ کر دیا گیا،سفیر صاحب نے ذاتی دلچسی لیتے ہوئے سول ایوایشن اتھارٹی،گاکا اور وزارت خارجہ کے چینلز کو استعمال کرتے ہوئے سعودی حکومت کو رضا مند کیا کہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کی جائے،اس طرح ۱۷ پائلٹس اپنی ملازمتوں پر بحال ہو گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ان کو جس انداز میں اپنی سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا،قابل افسوس ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر شکایات موصول ہوئیں تھیں تو سرکاری سطح پر،وزارتِ خارجہ اس کو ڈیل کرتی،میڈیا پر آکر سستی شہرت سمیٹنے سے کیا حاصل ہوا؟وزیر اعظم عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ سفارتکاروں کو جب میڈیا پر بٹھا کر ذلیل کیا جائے گا تو وہ کیاخاک کام کریں گے؟آپ وزیر اعظم ہیں،باس ہیں آپ افسران کو تنبیہ کر سکتے ہیں۔اس بات کا سفیروں نے بہت بُرا بھی منایا تھا،وزیر خارجہ کی دانشمندی نے صورتحال سنبھال لی تھی۔میں تو کئی بار لکھ چکا ہوں کہ حکومت وزارتِ خارجہ کے تربیت یافتہ افسران کو سفیر بنا کے بھیج رہی ہے،یہ قابلِ ستائش ہے۔
راجہ علی اعجاز بہت سُلجھے،خوش اخلاق،خوش لباس،درویش منش بیوروکریٹ ہیں،انہوں نے خود کو حکومتِ وقت کے سامنے پیش کردیا،وزیر اعظم کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، اور کہا”میں سرکاری ملازم ہوں،سرکار کے ہر حکم کا پابند ہوں،ہر انکوئری کے لئے حاضر ہوں،ہم نے کام کرنا ہے،جہاں سرکار بھیجے گی،پہنچ جائیں گے“۔
کمال بندہ ہے؟ کوئی شکایت نہیں؟ کوئی شکوہ نہیں؟ کمیونٹی گواہ ہے کہ اس بندے نے بڑا کام کیا ہے، انہوں نے کمیونٹی کے لوگوں کو اپنا فون نمبر دیا ہوا تھا،کھلی کچہری ہوتی تھی،کووڈ کے دنوں میں ماسک لگائے،کالا سُوٹ اورکالا چشمہ پہنے،سفیر صاحب سفارت خانے کے انتظامات دیکھنے باہر خود نکل پڑتے تھے۔سعودی سرکاری اداروں میں پہنچے ہوتے،سعودی سرمایہ کاروں سے ملتے،پاکستان کے لئے کام کرتے،جیل میں بند پاکستانیوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے سعودی قوانین سے رعایت کی سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔میں عرض کرتا ہوں کہ ہم ان کو عزت سے رُخصت کرتے،انکوائری انکی منتظر نہ ہوتی،پاکستان ان کو خوش آمدید کہتا۔ان کا جی خوش ہو تا،وہ شکر گزار ہوتے کہ میں نے اپنی قوم کی خدمت کی ہے،لیکن راجہ صاحب ہم وہ لوگ ہیں جن کی شکایت کرتے ڈاکٹر قدیر خان اگلے جہاں سدھار گئے،آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہم؟ہم ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں،مسٹر ایمبیسیڈر
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭