محمد صغیر قمر
دل کی دنیا زیر و زبر ہے۔کچھ برس یوں ہی گزر گئے آج مکہ المکرمہ یاد آیا اور بے پناہ یاد آیا۔میرے اور مکہ المکرمہ کے درمیان کئی برس ہوئے ”حاضری“ کا پروانہ کھڑا ہے۔جب بھی مکہ المکرمہ گیا اس کی سنگلاخ زمینوں میں انجان راہوں پر بچھڑے لمحے تلاش کرتا،اپنے زخموں کو کریدتا اور تازہ کرتا۔آخری بار میں مکہ شہر سے باہر وہ گھاٹی تلاش کرتا رہا۔ جہاں آل یاسر کی مصیبتوں نے چشم فلک کو نم ناک کر دیا تھا۔ دعوت اسلامی کے وہی پر آشوب دن تھے جب مکہ کی فضا میں ہر جانب ستم گر مٹھی بھر اسلام پرستوں کو مٹانے کو نکل آئے تھے۔آل یاسر یمن سے نکلے تھے حضرت یاسر ؓ کے ایک بھائی کہیں کھو گئے تھے۔ انہیں تلاش کرتے وہ مکہ مکرمہ آئے گئے۔ تب ان کے ہمراہ دو بھائی بھی آئے تھے۔ جو جلد ہی واپس یمن چلے گئے۔ انہوں نے یہاں مکہ میں ہی شادی کر لی۔ ان کے بیٹے عمار اسلام کے اولین فدائیوں میں شامل ہو گئے۔ مکہ میں ان کا کوئی اور رشتہ دارنہیں تھا اس لیے قریش نے اکیلا جان کر انہیں خوب اذیت دی دکھ محض یہ تھا کہ ان کے جھوٹے خداؤں کا مستقبل خطرے میں تھا۔ قریش انہیں شدید تشدد کا نشانہ بناتے‘ جلتی تپتی ریت پر لٹاتے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔ ان کے والد حضرت یاسر ؓ اور والدہ حضرت سمیہ ؓ پر بھی ایسی ہی طبع آزمائی کی جاتی۔ اسی مشق ستم کے دوران حضرت سمیہؓ کو انتہائی وحشیانہ طریقے کے ساتھ ابو جہل نے سینے میں برچھی ماری اور وہ شہید ہو گئیں۔تب حضرت عمارؓ بھی قریش کی اذیت کا شکار تھے ان کی والدہ کو اسلام کی پہلی شہیدہ ہونے کا تا ابد اعزاز مل گیا۔
عمارؓ کو غلام بنا لیا گیا تھا لیکن وہ غلاموں کی نسل سے ہر گز تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سربلند کر کے نام نہاد آقاؤں کو دیکھتے تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے تھے۔ یہ کیسے آقا تھے جن کو ایک غلام نظر بھر کر دیکھتا تو انہیں اپنے قدموں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ ایک بار یہ آقا انہیں گرفتار کر کے لائے اور دیوار کے ساتھ کھڑکر دیا۔ ابو سفیان چیخا۔
”محمدؐ تمہیں کیا سکھاتے ہیں؟“
”وہ فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک سب انسان مساوی ہیں۔ ایسے جسے کنگھے کے دندانے“عمارؓ کا جواب بھی ویسا دبنگ تھا۔
امیہ‘ ابو سفیان اور بڑے بڑے سردار جو وہاں موجود تھے حضرت عمارؓ کا یہ جواب سن کر لال پیلا ہو گئے۔ اس ایک جواب نے ان کی صدیوں سے قائم سرداری کی عمارت کو بنیادوں تک ہلا دیا تھا۔ امیہ نے سرخ چہرے اور ابلتی آنکھوں سے ان پر جھپٹنے کی کوشش کی عمار اسی طرح استقامت سے کھڑے تھے۔ وہ بولے۔
”محمدؐ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔“
ابو سفیان کی نرم خوئی جاتی رہی اس کے چہرے پر سفاکی اور رعونت در آئی۔ چیخ کر بولا۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟ محمد ؐ کو احساس نہیں کہ ہم مکے میں خداؤں کو گھر دیتے ہیں‘یہاں ہرقبیلے کا الگ خدا ہے۔ہم ان قبیلوں کو سہولت دیتے ہیں۔ یہی ”خدا“ ہمارے معبود اور کمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر عمار ؓ سے مخاطب ہوا۔
”کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی سر پرستی نہیں کرتے۔“
ابو سفیان کو عمارؓ کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ بڑبڑایا۔
”اگر تم تین سو ساٹھ خداؤں کو نہیں مانو گے‘ صرف ایک خدا کو ماننے لگو گے جو تمہارے خیال میں ہر جگہ موجود ہے‘ تو پھر بتاؤ یہاں مکہ میں کون اور کیوں آ ئے گا؟ جب اسے طائف میں یروشلم میں ہرجگہ خدا میسر آ جائے گا تو پھر مکہ کی اہمیت کیا رہے گی؟“مکہ کے سرداروں کو بس فکر تھی تو یہ کہ محمدؐ جو بات کہتے ہیں وہ لوگوں کو اپیل کرتی ہے جس کی وجہ سے مکہ کا جما جمایا سرداری نظام زمین بوس ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ کمائی اور روز گار کے تمام ذرائع ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
عمارؓ کی باتیں ان کے نزدیک بغاوت تھیں چنانچہ امیہ اور ابو سفیان دانت پیستے ہوئے آگے بڑھے۔امیہ نے چیخ کر کہا۔
”تم کہتے کہ تمام انسان برابر ہیں۔“ ”ہاں“ عمارؓ نے جرات سے کہا۔
امیہ آگے بڑھا اور اپنے غلام بلال ؓ کے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔
”پھر یہ سیاہ فام بلال جسے میں نے قیمتاً خریداہے کیا میرے برابر ہے“
امیہ اور ابو سفیان کا خیال تھا کہ وہ بہت وزنی دلائل دے رہے ہیں وہ بزعم خود بڑے فلسفی تھے۔ اس سوال کے بعد وہ یقین رکھتے تھے کہ عمارؓ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا لیکن عمار ؓ ایک لمحے کے لیے بھی ڈگمگائے بغیر بولے۔
”ہاں! محمدؐ تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ کسی رنگ یا نسل کے ہوں۔“
یہ مسافر چشم تصور سے دیکھ رہا ہے۔ مکہ کی کسی گھاٹی کا وہ منظر …… جہاں بلال ؓ کی غلامی کا آخری دن طلوع ہو چکا تھا۔ امیہ کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے اس کا چہرہ سرخ تھا اور ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے آگے بڑھا اس نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا اور حکم دیا۔
”اس کو مار مار کر سبق سکھا دو۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مکہ کے ایک سردار اور غلام میں کیا فرق ہوتا ہے؟“
لمحے تھم گئے۔ مکہ کی سرزمین پرایک غلام بغاوت کے لیے ڈٹ گیا۔ امیہ نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا تھا انہوں نے چند ثانیے عمارؓ کو دیکھا تب ان کے اندر کی دنیا بدل گئی تھی۔ امیہ کی غلامی سے آزاد ہو کر وہ اللہ کے غلام بن گئے تھے۔ انہوں نے کوڑا عمارؓ کو مارنے کے بجائے زور سے زمین پر دے مارا۔ اس لمحے انہیں عمارؓ کی آواز آئی تھی۔
”بلال ؓ یہ جو کہتے ہیں وہ کرو‘ ورنہ یہ تمہیں ماردیں گے۔“
امیہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اس کی سانسیں ٹھہر گئی تھیں۔ اس کے گمان میں بھی یہ بات کب تھی کہ ایک غلام وہ بھی سیاہ فام،بغاوت پر اتر آئے گا۔ اس کے خیال میں سیاہ فام تو پیدا ہی غلامی کے لیے ہوئے تھے۔ وہ چیخا۔
”بلال ؓ اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ تم بھی کوئی انسان ہو اورتمہیں بھی خدا کو ماننے کا حق حاصل ہے تو کان کھول کر سن لو جو ہمارا خدا ہے وہی تمہارا سبھی کا خدا ہوگا۔کوئی نیا خدا ہر گز ہر گز نہیں ہوگا۔“
اٹھائیس برس غلامی میں گزارنے کے بعد اس روز بلال ؓ آزاد ہو گئے تھے۔ میں مکہ کی سرزمین پروہ جگہ تلاشتا ہوں جہاں بلال ؓ ریت پر لٹائے تڑپائے اور ستائے گئے …… ریت کے ان ذروں نے جہنوں نے بلالؓ اور عمار ؓکے جسم کو چھوا تھا۔ جہاں بلالؓ اور عمارؓکے قدم پڑے تھے وہاں اپنی آنکھیں رکھ دینا چاہتا تھا۔ ان ریت کے ذروں کو چھونا چاہتاہوں۔ وہ دن واپس چاہتا ہوں جب دوغلاموں نے ایکا کر کے انسانی خدائی کو مات دے ڈالی تھی۔ لیکن وہ ذرے کہاں گئے۔ وہ قریہ زمین کیا ہوا؟ وہ زمانہ کہاں گیا؟۔ کہاں گئے عمارؓ کہاں گئیں سمیہ ؓ……؟ آج انسانی خدائی کے علمبردار وں نے پھر سے انسان کو غلامی کی غاروں میں اتار دیا ہے۔جبر اور ظلم کو قانون کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔عمار و بلالؓ کے نا م لیوا غلامی کے سامنے ڈگیں ڈال چکے۔رب کی زمین پر رب کے دشمن ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔ وہ لمحے تھم جاتے۔اے کاش میں ان لمحوں میں موجود ہوتا۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭