ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کے ساتھ مل جاو۔ کائنات کا مالک اور اقتدار کا مرکز و محور خدا کی ذات ہے۔ اس کو مالک ماننا اور اس کے آگے سربسجود ہو کر گناہوں پر معافی کا طلبگار ہونا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکرگزار ہونا ہی اصل میں مذہب ربانی ہے۔ دل میں خوف خدا کو بیدار رکھنا اور گناہوں سے بچنا ہی تقویٰ ہے۔ انا وہ بیماری ہے جو براہ راست دل پر حملہ کرتی ہے۔ دنیاوی بودوباش اور واہ واہ کا کلچر اس بیماری کی آبیاری کرتا ہے۔ جس سے دل کمزور ہوتا جاتا ہے اور بیماری جڑ پکڑتی جاتی ہے۔ اس بیماری کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس بیماری کا تعلق باطن سے ہوتا ہے ظاہر سے نہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ظاہر سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ انسان کے پاس دو جہاں ہیں ایک اس کے باہر کا اور ایک اس کے اندر کا۔ جن کو باہر کے جہاں کی فکر ہوتی ہے ان کو اہل ظاہر کہا جاتا ہے۔ جو اپنے اندر کی دنیا آباد کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ان کو اہل باطن کہا جاتا ہے۔ اہل ظاہر اگر سب نیک کام بھی کرتے ہوں اور ان نیکیوں کا اثر باطن پر نہ ہو تو وہ نیکیاں ریاکاری میں آ جاتی ہیں۔ اب ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی صفائی ستھرائی بھی ضروری ہے۔ باطن کو لگنے والی بیماری کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ سچے لوگوں کے ساتھ رہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سچے لوگ کون ہوتے ہیں؟
میرے خیال میں سچے لوگ وہ نہیں ہوتے جو سچے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے پاس علم کا سمندر ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو طالب علم سمجھتے ہیں، ان کے پاس خدا کی عطا کی ہوئی طاقت ہوتی ہے لیکن وہ طاقت کے نشے میں اندھے نہیں ہوتے، وہ عارف ہوتے ہیں علم کا سمندر پی جاتے ہیں لیکن چھلکتے نہیں۔ لوگ ان کو اذیتیں دیتے ہیں لیکن وہ خدا سے ان کے لئے ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی رضا اور خوشنودی میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے خدا کے نبی ہوتے ہیں، خدا کے نبی کے ساتھی ہوتے ہیں، اولیا اللہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کو سچا کہا ہے۔ یہ لوگ باطن کی بیماریوں کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ علاج کرتے ہیں وہ وقت کے قطب اور ابدال بن جاتے ہیں۔ جن سے نکلنے والی روشنی سے بہت سے اور لوگوں کے دلوں کا آپریشن ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں دل میں انا اور میں کے پتھروں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔ جس سے انسان کے دل میں بہت خوبصورت پودے اگتے ہیں۔ ان میں پہلا پودا خدا کی محبت کے پھلوں سے بھر جاتا ہے۔ دوسرا پودا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے سرشار ہوتا ہے۔ تیسرا پودا خدا کی مخلوق کی خدمت کے جذبے سے اپنے پتوں کو جھکا چکا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں محبت، عشق اور خدمت کے پودے ہوتے ہیں اور جو ان کے پھل کھا لیتے ہیں وہ پھر ساری عمر نعرہ لگاتے ہیں کہ میں ناہیں سب توں۔ کوئی ان سے اس زندگی کا راز پوچھتا ہے تو وہ کہتے ہیں
میں نوں مار کے منج کر، نکی کر کے کٹ
بھرے خزانے رب دے، جو بھاویں سو لٹ
بابا فرید جیسا بزرگ پکار اٹھتا ہے کہ
اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا تیری ڈاھڈے نال پریت
پریت لگ جائے تو پھر آنکھ نہیں لگتی۔ کوئی اللہ والا پکار پکار کہتا ہے کہ
لگی والیاں دی اکھ نہیں لگدی
تیری نی کیویں اکھ لگ گئی
امیر خسرو کی ساری کی ساری شاعری ہی اسی فلسفے کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا فارسی میں کلام ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ “میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اس کے کوچے کا غبار ہوں، اور میں نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں “۔ عشق ومستی کی کیا خوب کیفیت ہے امیر خسرو کے ہاں۔ کہتے ہیں کہ
خدا خود میر مجلس بود، اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود، شب جائے کہ من بودم
بابا بلھے شاہ جب اس منزل پر پہنچتے ہیں تو کہہ اٹھتے ہیں کہ
رانجھا رانجھا کر دی نیں میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نیں مینوں دیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
اللہ کے سچے لوگوں کی باتیں بھی عشق ومستی والی ہوتی ہیں اور عشق ومستی نام ہے کیفیت کا۔ یہ کیفیت تقویٰ سے آگے کی منزل ہے جس میں خوف نہیں ہے۔ محبت خوف سے بالاتر ہے۔ اس محبت کو پانے کے لئے سچے لوگوں کی تلاش ضروری ہے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس چل کر جاتا ہے ڈاکٹر مریض کے پاس نہیں۔ اگر اس پر اعتراض کرنے والے میرے کالم کو پڑھ کر یہ کہیں کہ یہ کیسی تحریر جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو ان کو پھر صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تو نے حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، تو نے حقیقت کو جانا ہی نہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہو گا کہ کیا آج کے دور میں ایسے عشق ومستی والے لوگ ملتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مریض کو بیماری لگ چکی ہے لیکن وہ بے چینی میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی اصل بیماری کی تشخیص نہیں ہو پا رہی۔ وہ جن ڈاکٹروں سے علاج کرواتا ہے وہ اس بیماری کے ڈاکٹر ہی نہیں۔ اب بیماری کے لئے اصل ڈاکٹر کی تلاش تو کرنی پڑے گی۔ جب تک تلاش نہیں کرو گے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کیونکہ تلاش میں ہی سب کچھ ہے۔ خدا کہتا ہے کہ میری عبادت کرو اور روزی کی تلاش میں نکل پڑو۔ رزق کا تو خدا نے وعدہ کیا ہوا ہے پھر تلاش کیوں؟ اس نے رزق بھی کسی کے وسیلے سے آپ تک پہنچانا ہے۔ خدا ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭