ڈاکٹرناہید بانو
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پیچیدہ سماج آبادیاتی معاشرے اور ثقافتی ماحول میں خواتین کو با اختیار بنانا ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ انسانی ترقی کے تمام اہم شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو مردوں سے کم درجہ دیا گیا ہے۔ اس لئے پاکستانی تناظر میں خواتین کو با اختیار بنانے کے مختلف عوامل کا مطالعہ فوری طور پر ضروری ہے، مرد و عورت کی برابری کی بنیاد پر 149 ممالک کی لسٹ میں 148 نمبر پر ہے۔ معیشت میں کردار کی بنیاد پر 146 نمبر پر جبکہ سیاست میں خواتین کے کردار کی بنیاد پر 97 نمبر پر ہے۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ایک ایسے ماحول کی تخلیق شامل ہے جس کے اندر خواتین سٹریٹجک زندگی کے انتخاب اور فیصلے کسی مخصوص تناظر میں کرسکیں۔ یہ تصور اتنا وسیع ہے کہ اس کی پیمائش کرنا ہمیشہ پریشانی کا باعث رہا ہے۔ اس پیچیدگی کے بعد مختلف ریسرچرز نے ان پیچیدہ خیالات کی پیمائش کے لئے مختلف تصوراتی سکیم اور اشارے تیار کرلئے، مثال کے طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے انحصار ثقافتی اقدار، سماجی پوزیشن اور عورت کی زندگی کے مواقع پر ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا تین لیول پر ممکن ہے۔ پہلا انفرادی بااختیاری، دوسرا عقائد اور اقدامات میں خود مختاری اور تیسرا درجہ وسیع تر تناظر میں اختیارات ہیں۔ اس کے علاوہ بھی با اختیار بنانے کی چار اقسام ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ سماجی، ثقافتی، معاشی، تعلیم اور صحت سے متعلق اختیارات کے علاوہ اکثر استعمال ہونے والے موضوع میں گھریلو فیصلہ سازی، معاشی فیصلہ سازی، وسائل پر کنٹرول اور سفری نقل و حرکت شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مردوں کے غلبے اور صنفی فرق کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں خواتین میں فعال حصہ لینے میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں با اختیاری نہ صرف خود اعتمادی پیدا کرتی ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی ایک مضبوط عامل ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر سطح پر خواتین کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے اور بہت سی این جی اوز او ریونائیٹڈ نیشن وومن کام کر رہی ہیں جن کا مقصد سیاست اور معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھاتا ہے۔ اگر حقیقت میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو خواتین نہ صرف گھر کے کام کاج کرتی آرہی ہیں بلکہ کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر فصلوں کی کٹائی اور سبزیوں کو کھیتوں سے منڈی تک لانے کے کام میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں مگر ان کو کبھی پذیرائی نہیں ملی نہ ہی صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی آسان بنائی گئی۔
اسلامی تصور حیات کو اگر دیکھا جائے تو خواتین کو با اختیار بنانے میں اسلامی تعلیمات نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کی تعلیم اس کے گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت، میڈیا تک رسائی، صحت کی سہولیات، گھر کے افراد کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ خاتون کو بے خوف زندگی اسلامی تصور فراہم کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی ترقی و خوشحالی کے لئے مضبوط خواتین اس کی معیشت کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ ویسے بھی پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور قرآن پاک و حدیث بھی خواتین کے حقوق بشمول تعلیم، عبادت، آزادی رائے، شریک حیات کے انتخاب، معاشی آزادی، سماجی کردار کے تحفظ کی تاکید کرتے ہیں۔ ایک با اختیار صحت مند عورت با اعتماد بھی ہوگی جو اپنے ماحول کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بہترین فیصلے کی صلاحیت بھی رکھتی ہوگی جو اس کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر معاشرے کو خواتین کی صلاحیت اور ان کی شراکت کو سمجھنا ہوگا، آخر کب تک خواتین استحصال کاشکار اور جہیز نہ ملنے پر طعنوں کی حق دار رہیں گی۔ عورت ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ خواتین ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے قومی و ملکی، معاشی و معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ضرورت صرف ان کو سراہنے کی ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭