عبدالستار خان
کچھ ہی سال پہلے وجود میں آنے والی ایک مذہبی تنظیم جسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ وہی کالعدم تنظیم اب تک دو حکومتوں کو اچھے خاصے مشکل ترین مراحل سے گزار چکی ہے۔ دوسری طرف ملک کی وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو کافی عرصے سے شور مچا رہی ہیں کہ ہم دھرنا دے دیں گے، ہم لانگ مارچ کریں گے۔ ہم پہیہ جام کر دیں گے۔ ہم اس حکومت کو ختم کر دیں گے۔ ہم احتجاجی سیاست کی مہم شروع کریں گے جو موجودہ حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔ اِس بات کا تو سب کو علم ہے کہ ایک کالعدم تنظیم اور بے شمار پرانی اور تاریخی سیاسی جماعتوں میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ سیاسی جماعتیں حکومتیں بھی بناتی رہی ہیں۔ اور حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہیں۔ ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ حکومتی سیاست اور اپوزیشن کی سیاست کیا ہوتی ہے۔ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔ لیکن جب وہی لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا بخوبی اندازہ ہونے کے باوجود اپوزیشن کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو بلند بالا دعوے، سیاسی بیانات کی شکل میں کرنے پڑ جاتے ہیں۔ یا عادت ہو چکی ہے۔ یا پھر خوف ہے کہ لوگ، سپورٹرز، ووٹرز ہی ساتھ دینا چھوڑ دیں کہ یہ تو کوئی بڑا سیاسی بیان ہی نہیں دے پا رہے۔ بہرحال یہ بات بھی طے ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی وہ نہیں کر سکتیں جو ایک کالعدم تنظیم نے کر دیا۔ حکمرانوں کے بیانات اور حرکات واضح طور پر اِس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حکمران جماعت اور ان کے ساتھی ملک کی اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں سے اس طرح سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ جتنی وہ ایک کالعدم تنظیم سے ہیں۔جہاں ایک طرف حکمران گھبرائے ہوئے تھے۔ وہاں دوسری طرف ایک عام آدمی بھی بہت گھبرایا ہوا تھا۔
اگر حکمران جماعت تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ سیاسی طور پرایک غیر پختہ سیاسی جماعت کی طرح ابھری تھی۔ حکومت میں آنے کے باوجود کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک اپوزیشن میں ہے۔ اور حکمران جماعت بننے کی کوششوں میں مگن ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں۔ بلکہ ایک مجموعہ ہے۔ کوئی کہیں سے تو کوئی کہیں سے حکومت میں آنے سے پہلے اور اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے دعوے کر دیئے تھے۔ بلکہ آبادی کے اس حصے کو سیاسی طور پر متحرک کر دیا تھاجو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں سے بالکل ہی مایوس تھا۔ اسی لئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے لئے بالکل ہی تیار نہیں تھا۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد شُنید ہے کہ شاید وہ دِن دور نہ ہو جب یہ لوگ بھی تحریک انصاف کو باقی سیاسی جماعتوں کی صف میں کھڑا کر دیں۔ کالعدم تنظیم کی تحریک ایک سیاسی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ جوش اور بے خوفی کی کیفیت ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں بہرحال ہمیشہ ہی ایک سیاسی تحریک کی بات کرتی رہی ہیں۔
سیاسی تحریک ایک ایسی تحریک ہوتی ہے جس میں بہرحال ہدف حاصل ہو یا نہ ہو۔ لوگ آپ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اب یہ حکمران اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں جانتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے سپورٹرزاور ووٹرز کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیں گی تو ان کا وجود برقرار رہے گا۔ کچھ سمجھ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن اس وقت سیاسی جماعت کے حوالے سے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے اور مسلم لیگ ن کو ہی سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس کا ”ووٹ بینک“ محفوظ ہو اسے سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کو حقیقی طور پر اپنا ووٹ بینک بنانا پڑے گا۔ ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ سیاسی طور پر سب سے کڑے وقت میں ثابت ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کا ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ 2023ء کے انتخابات ہی سے پتہ چلے گا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭