تازہ تر ین

ہم کِدھر جارہے ہیں

عبدالباسط خان
پاکستانی سیاستدان کسی بھی ملکی مسئلے پر بے صبری سے بیان داغنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ ویسے تو بے صبری ہماری قوم میں بدرجہ اُتم موجود ہے اور ہم لوگ شارٹ کٹ طریقے سے کامیابی حاصل کرنے میں ہاٹ فیروٹ ہیں لیکن عوامی سطح پر بے صبری جو ہر آدمی آج سڑکوں پر دیکھ سکتا ہے اور ہم لوگ بلا تمیز چھوٹے بڑے، امیر وغریب جس ڈھٹائی سے موٹرسائیکل، کاریں، بسیں چلاتے ہیں اور کسی کارٹون فلم کی مانند نظر آتے ہیں مگر سیاسی قیادت دانشوروں اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور انہیں عام آدمی کی نسبت اپنے ردعمل اور بیانیے کو سوچ سمجھ کر اور صبر کے ساتھ پیش کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی معاملات پر فوری بیان بازی یا تجزیہ کاری ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کر سکتی ہے۔ اگر ہندوستان جیسے ملک میں کوئی سیاسی بحران، معاشی عدم استحکام آتا ہے تو ان کے ادارے مضبوط ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم لوگ 1947ء سے بعد اشرافیہ اور جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی لیڈر شپ جو سیاسی فہم و فراست سے عاری اور ذاتی اغراض اور مفادات پر مشتمل تھی ملکی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے میں نااہل ثابت ہوئی اور ابتدائی ادوار سے پاکستان سیاسی عدم استحکام اور ابتری کا شکار ہو گیا اگر ہماری سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں شریک نہ ہوتی تو ہمیں نہ تو فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی فوجی مداخلت کے بعد جمہوریت کو اتنا نقصان پہنچ سکتا۔
یہ ایک طویل فضول بحث ہے کہ ہمارے ہاں فوجی جرنیل سیاست میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے اور اگر ملک میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور سیاسی لیڈر شپ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حالات ان حالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہاں ویسے تو قائد اعظم کو بھی لوگ نہیں بخشتے اور اردو زبان کو کو بنگال میں نافذ کرنے سے بنگالیوں کو اپنے سے متنفر کرنے میں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاست کی بجائے فیصلے پارلیمنٹ کے اندر اتفاق رائے سے کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ سے باہر سیاست کرنے سے ہم نے مارشل لاء کو دعوت دی اور آزادی کے بعد واحد عوامی لیڈر جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھا کھو دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت سیاستدان مذاکرات کے ذریعے اپوزیشن کو دعوت دی جس کو قبول کرنے میں اپوزیشن نے بہت وقت گنوا دیا اور پھر جو کچھ ہوا آج ہمارے سامنے ہے نہ کوئی لیڈر نہ کوئی سیاستدان اور نہ ہی محب وطن نظر آتا ہے ہم ایک گروہ کی مانند قوم ہیں جن میں صرف اور صرف نفانفسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کی تمنا اور خواہش ہے۔ سیاستدان اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر فوجی مداخلت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک کی بربادی کی ذمہ دار ہے تو آج سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں وہ کیا کہیں گے ایک ملک کے وزیراعظم نے تبادلوں کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تو وہ سیاستدان جوفوج پر الزام دھرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے یا سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے فوج کے ساتھ ہمدردی دکھا رہے ہیں وہ سویلین لیڈر شپ کو طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ فوج کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں حالانکہ ان کو وقتی طور پر عمران کمزور نظر آ رہا ہے کیونکہ مہنگائی زوروں پر ہے اور افغانستان کے حالات پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے معاشی اور سیاسی طور پر سازگار نہیں۔
میں تو اس کو موقعہ پرستی سے ہی تعبیر کروں گا یہی طرز عمل PNA کی تحریک جو 1977ء کے الیکشن کے بعد چلائی گئی اور فوج کو دعوت دی گئی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیں وہ PDM جو الیکشن کے بعد مسلسل عمران خان کی حکومت کو گہری تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھی آج اپنے مطلب کیلئے مفاد کیلئے اور حکومت کے جلد خاتمے کے لئے سویلین لیڈر شپ کے خلاف علم اٹھاتی نظر آتی ہے یہ موقع پرستی جلد بازی، ذاتی مفاد پرستی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ فوج بیچاری کو خواہ مخواہ موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے آزادی کے فوراً بعد تو ہم نے ہوش میں وہ حالات نہیں دیکھے صرف تاریخ میں پڑے جبکہ ایوب خان، بھٹو صاحب کے دور سے آج تک سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ سیاسی لیڈر شپ جو ملکولیت، جاگیرداری اور سرمایہ داروں پر مشتمل تھی آج کاروباری اور بزنس پر مشتمل افراد کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ ہم ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے پر لے جانے کی بجائے اس کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں عمران خان تنہا ذمہ دار نہیں یہ سب سیاسی لیڈر شپ سے جنہوں نے اپنے ادوار میں بھاری قرضے لے کر عوام کو سب سڈیاں فراہم کیں ان کو تن آسانی اور عیاش قوم بنا دیا۔
وہ قومیں آج دنیا میں مشہور ہیں جنہوں نے آخر میں پی ڈی ایم کے جلسے میں جس میں نواز لیگ اور فضل الرحمن نمایاں ہیں ایک فوجی کور کمانڈر کے خلاف استعفیٰ دینے کیلئے نعرہ بازی کروانے والے کون سے محبت وطن سیاستدان ہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے اس ملک کو بدحالی، معاشی عدم استحکام کی طرف دھکیلا اپنے دور حکومت کا زیادہ وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، جلسوں، ریلیوں اور روڈ مارچ میں گزارا اور اس غریب عوام کو ہسپتال بنانے اور تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی بجائے اورنج ٹرین، میٹرو، بی آر ٹی، موٹر ویز ایکسپریس بنانے میں گزارا۔ ہماری قوم جو تیسرے امپائر کی شوقین ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ جلد الیکشن کرنے یا حکومت گرانے سے مہنگائی ختم ہو سکتی ہے وہ کون سا جن ہے جو فوراً الہ دین کے لیمپ کی مانند حالات ٹھیک کر دے گا اس گھر کو اس چمن کو اجاڑنے میں سب لیڈرز براہ راست شریک ہیں اور سب مل کر ہی پارلیمنٹ میں اس حکومت سے ڈائیلاگ کریں اور ایک مشترکہ طرز عمل بنائیں اس ملک میں اعتدال پسندی رواداری ایک دورسے کی عزت کرنے اور احترام کو اپنا شعار بنائیں۔
ملکی معیشت کو فی الحال فوری ٹھیک نہیں ہو سکتی لیکن ملکی سیاست کو گالم گلوچ، وشنا طرازی روڈ مارچ جلسے جلوسوں ریلیوں کی بجائے فہم و فراست سیاسی سوجھ بوجھ متفقہ پالیسی بنا کر اس پاکستان کی اس ڈوبتی کشتی کو پار لگائیں ملکی مفاد قومی سلامتی کیلئے پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو سب مل کر پارلیمنٹ میں جائیں اور اگلے الیکشن کیلئے ضابطہ اخلاق اور ووٹ چوری سے بچاؤ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain