ملک منظور احمد
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا ہے اور مظاہرین کی جانب سے سٹرکیں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں معمولات زندگی کا سلسلہ بحال ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن اس معاہدے کے بعد سوالات کا جواب ملنے کے کے بجائے مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات وقت آنے پر عوام کے سامنے رکھی جا ئیں گی جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ کسی بھی معاہدے کی تفصیلات جاننا عوام کا حق حکومت فوری طور پر تفصیلات عوام کے سامنے رکھے، حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کی جانے والی 12رکنی کمیٹی غیر فعال ہوگئی اور آخر میں آکر مفتی منیب الرحمان اور مولانا بشیر فاروقی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ مذاکرات کیے اور معاملہ کو کسی انجام تک پہنچایا۔
اس سارے دھرنے کے دوران حکومتی وزراء کا رویہ اور طرز عمل پر بھی مذہبی جماعت بلکہ علمائے کرام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ حساس ترین معاملات میں چند وزراء کی غیرذمہ دارانہ بیان بازی معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنی۔ حکومت روز اول سے ہی اس معاملے پر مخمصے کا شکار دکھائی دی، کبھی حکومت نے مذہبی جماعت سے مذاکرات کی بات کی اور اگلے ہی دن ان کو عسکری تنظیم قرار دے کر ان کے خلاف سخت کارروائی کا مؤقف اپنایا اور شاید اسی کنفیوژن کے باعث عوام سمیت کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حکومت آخر اس حوالے سے کیا پالیسی اپنانا چاہتی ہے لیکن بہرحال اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معاہدے کے بعد ملک میں موجود بے یقینی اور انتشار کی فضا کا خاتمہ ہوا ہے اور عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے لیکن یہاں پر یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان شخصیات میں سیاستدان اور علمائے کرام تو شامل ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ نے بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آرمی چیف پاکستان کو ایک امن پسند ترقی یافتہ اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس معاملہ میں ان کا نہایت ہی مثبت اور اہم کرداد اس بات کی گواہی دیتا ہے اور یہ بات بھی یہاں پر قابل زکر ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتیں بھی اس احتجاج کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے پر تولے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں اور یہ معاہدہ ہونے کے باعث پاکستان ایک بڑے طوفان سے بچ گیا ہے۔
پاکستان اس وقت عالمی صورتحال کے تناظر میں دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور پاکستان پر اس حوالے سے بہت دباؤ بھی ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے بہت محتاط انداز میں چلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پر پہلے ہی فیٹف کی تلوار لٹک رہی ہے اور یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان کا جی ایس پی پلس کا تجارتی سٹیٹس جس کے تحت پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ترجیحی رسائی حاصل ہے اور پاکستان کو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو اس مد میں اربوں ڈالر کا فائدہ ہو چکا ہے، خطرے میں پڑ سکتا تھا، فرانس مذہبی جماعت کے احتجاج میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور فرانس ہی یورپی یونین کا مرکزی ملک بھی ہے۔ اگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جاتا تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ پاکستان یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
بہرحال یہ پاکستان کے لیے بہت ہی مثبت پیشرفت ہے جوکہ اس معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے، یہ بات بھی قابل غور ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے کہ آخر کیوں حکومتی کمیٹی میں تبدیلی کی ضرورت پڑی، اگر مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدہ کرنا ہی تھا جوکہ اس معاملے کا آخری حل تھا تو پھر معاہدے سے چند روز قبل ہی دھمکیاں کیوں دی گئیں؟ وزراء کے چند بیانات کی شکایت تو علمائے کرام نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کی۔ اس غیرسنجیدہ رویے پر وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے اور یقینی بنایا جانا چاہیے کہ آئندہ ایسی صورتحال درپیش ہو تو کم ازکم اس کو ہینڈل کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اس حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ملک میں دھرنا کلچر تو بہرحال موجودہ حکومت نے ہی شروع کیا تھا اور عوام کو اس انداز میں سٹرکیں بند کرکے احتجاج کرنے کاراستہ دکھایا تھا اور اب یہ طریقہ احتجاج نہ صرف موجودہ حکومت کے گلے میں خود پڑ گیا ہے بلکہ ملک کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ سوال کیے جا رہے ہیں کہ یہ ریت شروع تو کر دی گئی ہے لیکن اب اس کا اختتام کیوں کر ہوگا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پُرامن احتجاج تو ہر سیاسی اور مذہبی جماعت بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن راستے بند کرنا، عوام کی املاک کو نقصان پہنچانا، ریاستی اہلکاروں پر حملے کرنا کسی صورت بھی مناسب تصور نہیں کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی مہذب ریاست میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس کلچر کا خاتمہ اب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز اور لیڈران کو ملکر ہی کرنا ہوگا ورنہ مستقبل میں اس طرح کے احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک بات ہے کہ کیا تحریک لبیک کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری کی جائے گی یا نہیں حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرے گی یا نہیں؟ یہ سوال اہم ہیں لیکن ان کے جواب واضح اور اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ان سوالات کا جواب تو قوم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل ہی جائے گا لیکن امید کی جاسکتی ہے جن اہم قومی شخصیات نے اس معاہدے کو پا یہ تکمیل تک پہنچانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے ان شخصیات کے اثر کے باعث یہ معاہدہ پائیدار ثابت ہوگا اور چلتا رہے گا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک پُرتشدد سیاست اور پُرتشدد احتجاج کے متحمل نہیں۔ اگر مستقبل میں ہم بہتری چاہتے ہیں تو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭