رانا زاہد اقبال
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں وسرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورتحال گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عنقریب بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ گزشتہ روز وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پٹرولیم کی مد میں ٹیکس ریونیو میں 450ارب روپے کے گیپ کو پورا کرنے کیلئے ٹیکسوں کی شرح میں نظرثانی کرنے جارہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف دباؤ ڈال کر روپے کی قدر کو کم ترین سطح پر لانا چاہتا ہے۔ معیشت کی اس تباہی کے بدلے میں پاکستان کو قرض کی رُکی ہوئی رقم سے ایک ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی ایک ارب ڈالر کی رکی ہوئی قسط میں عوام کیلئے کیا ہے۔ سوائے اس نئے قرض کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کی نئی لہر اور مزید معاشی بحران کے؟
کچھ عرصہ قبل تک حکومت کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ذرائع سے معیشت بحال کرنے کی کوشش کریں گے جس کیلئے وسائل کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھائے بغیر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر وسائل کیسے پیدا کئے جائیں کہ حکومت اقتصادی بحران پر قابو پا سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لئے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے؟ یقینا ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کیلئے دولت بیرونِ ملک منتقل کردی ایسی دولت وطنِ عزیز میں لانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لئے اور بعد میں قرض معاف کروا لئے۔ بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔
ماضی میں سب سے زیادہ زرعی قرضے ترقی کے نام پر بڑے بڑے جاگیر داروں نے حاصل کئے۔ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے کے افراد بھی صنعتی ترقی کے نام پر اس دوڑ میں شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قرضوں کی معافی کیلئے سیاسی وفاداریوں بھی تبدیل کرتے رہے۔ اس طرح انہوں نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی معیشت کو متزلزل کرنے اور مالیاتی اداروں کو دیوالیہ کرنے میں کون سے عناصر سرِفہرست تھے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ماضی کی کسی بھی حکومت نے اس بدعنوانی اور لوٹ مار کا نوٹس لینے اور قومی سرمائے کی واپسی کیلئے کوئی قدم اُٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھاسکتی ہے۔ دوست ممالک سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔ یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭