تازہ تر ین

چھوٹا راجن نے داﺅد ابراہیم کے میچ فکسنگ کے 5 سو ملین ڈبو دئیے۔ رپورٹ: ستار خان

میچ فکسنگ کے بارے تحقیقات کرنے والوں کی دنیا میں ایک بات مشہور ہے کہ اول تو میچ فکسنگ کو پکے ثبوتوں کے ساتھ پکڑنا بہت ہی مشکل کام ہے اور اگر کوئی مضبوط کیس ہاتھ میں لگ جائے تو ثبوتوں کو جوڑتے ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔ کوئی مضبوط ثبوت ہوتا ہے تو اگلا ثبوت کمزور۔ پھر اگر ایسی بات بھی نہ ہو اور میچ فکسنگ کا مضبوط ترین کیس ہتھے چڑھ جائے تو بدقسمتی اس صورت میں سامنے آتی ہے۔ جب کیس کا مرکزی ملزم تو رہنا والا اسی ملک کا ہو جہاں کیس پکڑا گیا ہے لیکن شہری وہ کسی اور ملک کا ہو۔ اس صورت میں مرکزی ملزم کو Extradition کے ذریعے ملک میں لاتے سالہا سال بہت جاتے ہیں۔ یہی ہوا انڈیا کے ساتھ میچ فکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس سن دو ہزار میں انڈیا میں پکڑا جاتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں ایک تہلکا مچ جاتا ہے۔ کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کا نام سامنے آ جاتا ہے جس میں ساﺅتھ افریقہ کے سابقہ کپتان ہنسی کرونی اپنا جرم مانتے ہوئے کرکٹ کی دنیا باہر ہوگئے۔ پھر ایک فضائی حادثے میں مارے گئے لیکن اس سب سے زیادہ ثبوتوں کے ساتھ پکڑا جانے والا کیس ادھورا اس لیے رہا کہ کیس کا مرکزی ملزم سنجیو چاولہ برطانیہ کا رہنے والا ہے اور سنجیو چاولہ ہی وہ بک میکر تھا جو اس کیس میں پیسوں کی تقسیم کیا کرتا تھا۔ انڈیا کی پولیس اور دیگر سرکاری ادارے سنجیو چاولہ کو انڈیا لانے کیلئے سر توڑ کوششیں کرتے رہے اور بالآخر بیس سال بعد انڈیا میں سنجیو چاولہ کو لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انڈیا اور برطانیہ کے درمیان انیس سو بانوے میں Etradition Treaty ہوا تھا اور سنجیو چاولہ اس معاہدے کے تحت لایا جانے والا پہلا مجرم ہے۔ پہلے سنجیو چاولہ کو انڈیا لانے کیلئے برطانیہ کے Westminnter Magrshale Count نے کئی سال لگا دیئے۔ پھر برطانیہ کی ہائیکورٹ میں کافی سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں یہ کیس پھنسا رہا۔ اس دوران انڈیا کی حکومت نے برطانیہ کی حکومت اور عدالتوں کو تین مرتبہ Souerign Assmence دی کہ ملزم کو انڈیا کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی۔ برطانیہ کی عدالتیں انڈیا کی حکومت سے تہاڑ جیل انڈیا کے حوالے سے گارنٹیاں لیتی رہیں۔ سنجیو چاولہ کے انڈیا آتے ہی تہاڑ جیل میں ڈالنا تھا۔ برطانوی عدالتیں تہاڑ جیل کے بارے میں بار بار اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہیں کہ تہاڑ جیل میں قیدی تہاڑ جیل کی Capacity سے زیادہ ہیں۔ تہاڑ جیل میں میڈیکل کی سہولتیں بہت کم ہیں۔ تہاڑ جیل میں سنجیو چاولہ کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ تہاڑ جیل کے قیدی ہی سنجیو چاولہ کی جان لے سکتے ہیں۔ بالآخر بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد انڈیا کی حکومت نے برطانوی عدالتوں کو یقین دلایا کہ سنجیو چاولہ تہاڑ جیل میں خاص خاص سیلوں میں بحفاظت رہے گا۔ کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی لیکن جب اس طرح کی یقین دہانیوں اور تین تین مرتبہ Souerign Assmence دینے کے بعد اور بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جب سنجیو چاولہ کو انڈیا واپس لایا گیا تو سنجیو چاولہ نے میچ فکسنگ پر ایسا بیان دیا جو بڑا مضحکہ خیز بھی ہے اور حقیقت بھی لگتی ہے۔ سنجیو چاولہ کا بیان تھا کہ وہ کون سا ایسا کرکٹ کا میچ ہے جو فکس نہیں ہوتا۔ چاولہ نے کہا کہ ہر کرکٹ میچ ایک فلم کی طرح ہوتا ہے۔ اسکرپٹ بھی لکھا ہوتا ہے اور ڈائریکٹر بھی ہوتا ہے۔ اب یہ تحقیقاتی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ کہاں تک ثبوت حاصل کر سکتے ہیں تو یہ تھا میچ فکسنگ کے اس ملزم کا بیان جس کو Extradition کے تحت انڈیا لاتے لاتے بیس سال گزر گئے۔ اس کے علاوہ چاولہ نے اپنے بیان کو مکمل کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس معاملے پر زبان کھولنے سے اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ تہاڑ جیل کو چاہے جتنا بھی محفوظ کردیا جائے۔ اس کے باوجود اس کی جان جا سکتی ہے۔ طاقتور ترین لوگ اسے تہاڑ جیل کے قیدیوں کے ذریعے بھی مروا سکتے ہیں۔ انڈر ورلڈ دنیا کے بادشاہ داﺅد ابراہیم کے ایک قریبی اور مہنگے ساتھی کا دبئی میں انڈیا کلب میں قتل ہو جاتا ہے۔ داﺅد ابراہیم کا یہ مہنگا ترین ساتھی شہزاد سیفی تھا جو میچ فکسنگ کا بادشاہ تھا۔ اس نے کرکٹ کے ورلڈ کپ کے شروع ہونے سے پہلے ہی جانے کتنے میچ فکس کیے ہوئے تھے۔ کس کس کھلاڑی آفشلر کس کس Magagment کے بندے کے ساتھ کس کیس میچ کیلئے کن کن شرائط کے ساتھ معاملات طے کیے ہوئے تھے۔ اس کا کسی کو بھی نہیں پتا تھا حتیٰ کہ داﺅد ابراہیم کو بھی کیونکہ شراد سیٹھی کا دماغ ایک کمپیوٹر سے کم نہیں تھا جب شہزاد سیفی کا قتل ہوا کہ انڈر ورلڈ کی دنیا میں داﺅد ابراہیم کے حریف چھوٹا راجن نے انڈر ورلڈ میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ اس شہزاد سیفی کا قتل کروایا ہے اور شہزاد سیفی کے قتل سے داﺅد ابراہیم کو 500ملین پاﺅنڈ یعنی اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ اب داﺅد ابراہیم بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ شہزاد سیفی نے کوئی نوٹ بک بھی نہیں رکھی ہوئی تھی جس میں میچ فکسنگ کے حوالے سے وہ باتیں تحریر ہوتی کہ کس کیس میچ میں کس کس نے کیا کرنا ہے۔ دبئی پولیس نے چار دن ہی شارد سیٹھی کے چار قاتلوں کو گرفتار کرلیا۔ دبئی پولیس کے سربراہ منیجر جنرل ڈھائی قلقان Tanrim نے بتایا کہ یہ قتل بڑی پلاننگ کے ساتھ بڑے ثبوت کے ساتھ اور بہت وقت گزرنے کے بعد anauge کیا گیا کیونکہ قاتل شہزاد سیفی کی ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھ رہے تھے۔ دبئی پولیس نے یہ بھی کہا کہ قاتلوں کا سرا انڈر ورلڈ کے بڑے بادشاہ چھوٹا راجن سے ملتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain