تازہ تر ین

عدلیہ پر الزامات، توہین عدالت کی کارروائی شروع

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کی جانب سے دیئے گئے مبینہ بیان حلقی پر لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کر دیئے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ تمام لوگ 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام لوگ سات روز میں جواب جمع کروائیں اور 10 روز بعد کیس کی سماعت ہوگی اور عدالت تمام افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے گی۔ فریقین کو توہین عدالت کے نوٹسز 2003ءکے توہین عدالت قانون کے تحت جاری کئے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کے حلاف نامے پر لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسلسل یہ بات کی جارہی ہے کہ انہیں الیکشن سے پہلے نہ چھوڑیں، ہماراایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔ مہربانی کر کے ہمارا احتساب کیجئے لیکن ہمیں متنازعہ نہ بنایئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر میں اپنے ججز کے بارے میں پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ پروسیڈنگ شروع نہ کرتا۔ اس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو تحریری طور سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کروں گا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ سماعت پر دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرسٹر خالد جاوید خان سے کہا کہ وہ اپنی جگہ کوئی نمائندہ مقررکردیں جو آئندہ سماعت پر آکر پیش ہو۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس خبر کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیئے کہ آزادی اظہار رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے، آپ کی رپورٹ نے لوگوں کے حقوق کو متاثر کیا ہے، اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ سماعت شروع نہ کرتا، میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیونکہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پرنا ہو تو یہ بہت الارمنگ ہے، آپ ایک بڑے میڈیا ہاﺅس اور اخبار کے مالک ہیں، اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اس کو پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں، میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرون ملک چھٹی تھے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain