محسن ظہیر
نیویارک سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ورچوئل فارمیٹ میں ہونے والے گروپ 77 اور چین کے 45ویں وزارتی اجلاس میں پاکستان کو منتخب کیا گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے گروپ آف 77کے 134 ممبران اور چین کا،سال 2022 میں گروپ کی قیادت کرنے کیلئے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرنے پر شکریہ ادا کیاگیا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ گروپ کے ممبران کے ساتھ مل کر ایسے ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا،جن میں قرضوں کی تنظیم نو،ترقی پذیر ممالک میں $650 بلین کے نئے SDRs کی دوبارہ تقسیم،بڑی رعایتی فنانسنگ،ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے سالانہ موسمیاتی فنانس میں 100 بلین ڈالر کا متحرک ہونا،ترقی پذیر ممالک سے اربوں کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کو ختم کرنا اور ان کے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی اور ایک منصفانہ اور کھلے تجارتی نظام اور ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام کی تشکیل ہوگا۔ 77 کا گروپ، جو 1964 میں قائم ہوا، اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا بین الحکومتی گروپ ہے۔ یہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو اقوام متحدہ کے نظام کے اندر اپنے اجتماعی اقتصادی مفادات کو بیان کرنے اور فروغ دینے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان گروپ کا بانی رکن ہے اور اسے ماضی میں تین مواقع پر نیویارک میں اس کی چیئر کے طور پر خدمات انجام دینے کا خصوصی اعزاز حاصل ہوا ہے۔
نیویارک سے ہی دوسری اہم خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر اور سابق کیریئر ڈپلومیٹ سردار مسعود خان انشاء اللہ نئے سال کے پہلے مہینے یعنی کہ جنوری 2022میں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید کی جگہ پاکستان کے نئے کی ذمہ دریاں سنبھال لیں گے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ان کی تعیناتی کا ”ایگریما“(معاہدہ) بھیج دیا گیا ہے، جونہی امریکی حکومت کی جانب سے ان کی تعیناتی کی قبولیت کا اظہار کیا جاتا ہے، سردار مسعود خان، واشنگٹن میں اپنے فرائض منصبی سنبھال لیں گے۔
راولا کوٹ (ضلع پونچھ) آزاد جموں و کشمیر میں پیدا ہونیوالے سردار مسعود خان بڑے خوش قسمت بیورو کریٹ یا ٹیکنو کریٹ ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ان کی تقرری، ان کی اہم عہدوں پر مسلسل تقرری کی ”ہیٹرک“ ہو گی۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے آفس میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے، سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں وہ چین میں پاکستان کے سفیر رہے، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ادوار کے دوران اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی اور اسی دور میں صدر آزاد جموں و کشمیر منتخب کروائے گئے اور اب پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں،واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعینات ہونے جا رہے ہیں۔
سردار مسعود خان ممکنہ طور پر آئندہ ماہ جنوری 2022میں جب واشنگٹن ڈی سی میں بطورسفیر اپنا عہدہ سنبھالیں گے تو اس وقت، امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا ہوگا۔اس عرصے کا حساب کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ سبکدوش ہونیوالے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان، امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات تو دور کی بات ہے، ایک فون کال کا بھی انتظام نہیں کر و اسکے۔ اس ملاقات یا فون کال کروانے میں سفیر کی کتنی حیثیت ہے یا نہیں،یہ الگ بات ہے۔ اس حوالے سے جب بائیڈن انتظامیہ کے قریبی حلقوں سے استفسار کیا جاتا ہے تووہ کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ کوئی مجھے پاکستان کے بارے میں کچھ نہ بتائے، میں پاکستان کے بارے میں خود بہت کچھ جانتا ہوں۔یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ امریکی صدر منتخب ہونے سے قبل جو بائیڈن نے سابق امریکی نائب صدر اور یو ایس سینٹ ریلیش کمیٹی کے ”رینکنگ ممبر“ اور چئیرمین کی حیثیت سے سالہا سال بلکہ تین دہائیوں تک پاکستان سے سمیت بیرون ممالک سے امریکہ کے تعلقات کو ایک قانون ساز کے طور پر قریب سے دیکھا، متعدد بار پاکستان کے دورے کئے۔
ڈاکٹر اسد مجید سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب دونوں قائدین ضرورت محسوس کریں گے تو فون کال اور ملاقات بھی کریں گے تاہم امریکی صدر کے علاوہ پاک امریکہ اعلیٰ سطحی روابط موجود ہیں۔
اب مذکورہ حالات میں سردار مسعود خان کو واشنگٹن میں اپنی نہ صرف ذمہ داریاں سنبھالنا ہوں گی بلکہ ان کے وسیع تجربے اور قابلیت کی جھلک، پاک امریکہ تعلقات میں کسی اہم پیش رفت کی صورت میں نظر بھی آنی چاہیے۔
(کالم نگارنیویارک میں“ خبریں“ کے بیوروچیف ہیں)
٭……٭……٭