محمدنعیم قریشی
تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے اور اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق دینے کا بل منظور کر لیاہے، اس حوالے سے صدرمملکت کٹر عارف علوی نے آئین کی آرٹیکل 89کے تحت الیکشن دوسرا ترمیمی آرڈینینس 2021جاری کردیا ہے،اس عمل کو ملکی قانون کا حصہ بنانے کے لیے اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیئے الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن ایک اور 94اور سیکشن 103میں ترمیم کی گئی ہے۔
جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بات جائے تو یہ ووٹنگ مشین دنیا میں بہت کم ہے،دنیا بھر میں تو 196ممالک ہیں مگر اس وقت الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا سسٹم آٹھ سے دس ملکوں میں رائج ہے،باقی ملکوں میں ابھی تک ٹھپے لگانے کا سسٹم ہی رائج ہے،لیکن جن ملکوں میں یہ جدید سسٹم رائج ہے وہ بہت کامیاب ہے جس میں انڈیا کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے،سمندر پار پاکستانیوں نے ہمیشہ سے ہی اربوں ڈالر کی ترسیلات زر اور وہاں بیٹھ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی صورتحال میں پاکستان کی حکومتوں کا ساتھ دیاہے،جو نہ صرف پاکستان کی معاشی صورتحال میں مدد کرتے ہیں بلکہ انتخابات میں پاکستان میں بننے والی حکومتوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کسی حد تک کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد نوئے لاکھ ہے جس میں سے ستر لاکھ ووٹرحصہ لیتے ہیں جبکہ پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد دس کروڑ چھپن لاکھ ہے، چالیس سے پچاس فیصدتک ووٹ کاسٹ ہوتاہے یہ درست ہے کہ ملک کے مختلف حلقوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ ووٹ اپنی افادیت کو کسی حد تک کم کردیتاہے سارا فیصلہ نہ سہی مگرملک میں پچیس سے تیس حلقے ضرور متاثر ہوجاتے ہیں جبکہ پچیس سے تیس سیٹیں اس ملک میں کسقدر بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں یہ بات حکومت اور اپوزیشن والے دونوں ہی جانتے ہیں،ماضی میں اورسیز پاکستانیوں کو ان کی خدمات کے صلے میں مختلف مراعات سے نوازنے کے وعدے بھی کیئے جاتے رہے ہیں مگر جہاں تک مجھے یاد ہے یہ وعدے بھی پاکستان کی عوام سے کیئے گئے وعدوں کی طرح کبھی وفانہ ہوسکے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے اپنے قیام یعنی 1947سے 2018تک 300ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیا ہے، اس لیئے جو بھی حکومت آتی ہے اسے بیرونی وسائل پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت نے فروری 1997کو قومی قرض اتارنے کا پروگرام پیش کیا، جسے نیشنل ڈیبٹ ریٹائرمنٹ پروگرام کہا جاتا ہے، مگر یہ پروگرام قرض اتارو ملک سنوارو کے نام سے مشہور ہوا، یہ ایک وسیع البنیاد اسکیم تھی جس میں امریکی ڈالر کے علاوہ برطانوی پاؤنڈ اور جرمن مارک میں سرمایہ کاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس میں سمندر پار اور ملک کے اندر رہنے والے پاکستانیوں نے اپنی حیثیت کے مطابق سرمایہ کاری کی، واضح رہے کہ اس اسکیم میں عطیات، قرض حسنہ(بغیر منافع کا قرض) اور تین طرح کی مدت تکمیل کے سرمایہ کاری بانڈز شامل تھے، یہ اسکیم کئی سال تک جاری رہی مگر پہلے ہی سال زیادہ تر رقوم منتقل ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق NDRP میں عطیات کی مد میں دو کروڑ اسی لاکھ ڈالر، قرض حسنہ میں 16لاکھ ڈالر اور سرمایہ کاری کی مدمیں 18کروڑ 40لاکھ ڈالر جمع ہوئے ہیں مجموعی طور پر 17کروڑ 83لاکھ ڈالر جمع ہوئے، اس زمانے میں اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیئے اس رقم کو زکوٰۃ کٹوتی سے مستثنیٰ، ترسیلات پر چارجز کی معافی کے علاوہ سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی چھوٹ بھی دی گئی تھی، جبکہ اس اسکیم میں ایسے پاکستانی بھی سرمایہ کاری کر سکتے تھے، جن کے ملک کے اندر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس موجود تھے، 1998میں ایٹمی دھماکوں کے بعد غیر ملکی اکاؤنٹس کی بندش اور 1999میں حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد یہ اسکیم غیر فعال ہوچکی تھی، مگر پھر بھی حکومت پاکستان کو ایک ارب ستر کروڑ روپے قرض میں کمی ہوئی اور سود میں 17.3فیصد کی بچت ہوئی، اسکیم کی تمام رقوم اسٹیٹ بینک میں جمع ہوئیں اور سب سے بڑھ کر سرمایہ کاری کرنے والوں یا قرض حسنہ دینے والوں کی رقوم واپس کر دی گئیں۔
پاکستان میں ترسیلات کے اضافے کے لیئے سال 2009میں پاکستان ریمیٹینس انیشیٹیو (بی آر آئی) کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا گیا جس کا افتتاح وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور وفاقی وزیر برائے سمند ر پار پاکستانی فاروق ستار نے کیا، اس انیشیٹیو کا مقصد ترسیلات زر کے لیئے سہولت مدد،تیزرفتار، سستا اور آسان طریقہ کار فراہم کرناتھا، اس حوالے سے بی آر آئی نے ترسیلات لانے کے لیئے مختلف طریقے وضع کیے، تاکہ ملک میں ہنڈی حوالہ کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور بینکاری چینل کے ذریعے ڈالر کو ملک میں لایا جا سکے، بی آر آئی اسٹیٹ بینک،وزار ت برائے سمندر پار پاکستانی، اور وزارت خزانہ کا مشترکہ منصوبہ کہلاتاہے، اس حوالے سے بی آر آئی نے ترسیلات زر کی فراہمی میں موجود رکاوٹوں کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ ترسیلات بھجوانے اور وصول کرنے کا عمل تیز کیا۔
بی آر آئی نے سال 2009میں رئیل ٹائم گروس سیٹلمنٹ اور کیش اوور کاونٹر جبکہ سال 2012میں انٹر بینک فنڈ ٹرانسفر متعارف کرائے ہیں بی آر آئی میں اب تک 25بینکوں نے شمولیت اختیار کی ہے اور اب ریمیٹنش وصول ہونے کے بعد وصول کرنے والے اے ٹی ایم کے ذریعے رقوم حاصل کرسکتے ہیں، یہ باتیں آن دی ریکارڈ ہیں جبکہ سال2008کی با ت کی جائے تو اس وقت پاکستان کو 7ارب ڈالر کی ترسیلا ت موصول ہوئی تھیں اس پر عالمی بینک کے مطابق سال 2018میں پاکستان کو ترسیلات وصول کرنیوالے دس بڑے ملکوں میں ساتویں پوزیشن حاصل ہوئی اور پاکستان میں 20.9ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جبکہ بھارت 79ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا ہے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ہمیں اس ملک کے سب سے اہم اثاثے کے طور پر حفاظت کرنی ہے، اور ووٹ کا حق ملنے کے بعد اب ہر حکومت سمندر پار پاکستانیوں کی قدر کرنے پر مجبور ہوجائیگی، پاکستان کے ایئر پورٹوں پر ان مزدورطبقات کو وہ احترام نہیں دیا جاتا جس کاا ظہار وزیراعظم کرتے ہیں، یہی حال باہر ملکوں میں ہمارے سفارتخانوں کا ہوتا ہے، وزیراعظم پاکستان کے چاہئے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے افراد اور بیرون ملک سفارتکار وں کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کریں کہ زرمبادلہ کمانے والے ان سمندر پار پاکستانیوں کو عزت و احترام سے دیکھا جائے اور ان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھی جائے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭