ہو سکتا الیکشن 2023 اپنی مقررہ مدت سے قبل ہوجائے
“روزنامہ جدت”،”پیپلز میگزین پاکستان”، “برانڈز میگزین”، “FHM میگزین” کے ساتھ خصوصی نشست میں چیف ایڈیٹر خبریں گروپ امتنان شاہد کی خصوصی گفتگو

ہو سکتا الیکشن 2023 اپنی مقررہ مدت سے قبل ہوجائے
“روزنامہ جدت”،”پیپلز میگزین پاکستان”، “برانڈز میگزین”، “FHM میگزین” کے ساتھ خصوصی نشست میں چیف ایڈیٹر خبریں گروپ امتنان شاہد کی خصوصی گفتگو
“روزنامہ جدت”پیپلز میگزین پاکستان ، برانڈز میگزین FHM میگزین کے ساتھ خصوصی نشست میں چیف ایڈیٹر خبریں گروپ کی خصوصی گفتگو
انگلینڈ نے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کی بدولت بھارت کو تیسرے ٹیسٹ میچ میں اننگز اور 76 رنز سے شکست دے کر سیریز 1-1 سے برابر کردی۔
لیڈز میں کھیلے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن بھارت نے 215 رنز دو کھلاڑی آؤٹ سے اپنی دوسری نامکمل اننگز دوبارہ شروع کی تو کپتان ویرات کوہلی اور چتیشور پجارا وکٹ پر موجود تھے۔
دن کے آغاز میں ہی انگلینڈ نے نئی گیند لے لی اور مجموعی اسکور میں بغیر کسی اضافے کے چتیشور پجارا پویلین لوٹ گئے، 91 رنز بنانے والے بلے باز نے گیند کو چھوڑنے کی غلطی کی جو ان کے پیڈ پر جا لگی، فیلڈ امپائر نے انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا لیکن انگلینڈ نے ریویو پر دن کے آغاز میں ہی قیمتی وکٹ حاصل کر لی۔
انگلینڈ کو اگلی کامیابی کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور ویرات کوہلی سیریز کی پہلی نصف سنچری بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے، انہوں اولی رابنسن کی وکٹ بننے سے قبل 55 رنز بنائے۔
کوہلی کے آؤٹ ہوتے ہیں وکٹیں گرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا، جو پھر تھم نہ سکا اور میچ کے تیسرے دن بہترین کھیل پیش کرنے والی بھارتی ٹیم چوتھے دن نئی گیند پر ایک مرتبہ پھر بے بس نظر آئی۔
مہمان ٹیم اس نقصان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ اگلے ہی اوور میں جیمز اینڈرسن نے اجنکیا راہانے کو بھی چلتا کردیا جبکہ رابنسن نے ایک اور شکار کرتے ہوئے ریشابھ پنت کا بھی کام تمام کردیا۔
محمد شامی کی چھ رنز کی اننگز معین علی کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی جبکہ ایشانت شرما کو آؤٹ کر کے رابنسن نے پانچویں وکٹ حاصل کی۔
رویندرا جدیجا نے چند بڑے شاٹس کھیلے لیکن انگلش باؤلرز کے سامنے ان کی بھی ایک نہ چل سکی اور اوورٹن کو لگاتار تین چوکے لگانے کے بعد وہ اگلے اوور میں انہی کو وکٹ دے بیٹھے۔
ایک گیند بعد ہی اوورٹن نے سراج کا کام بھی تمام کر کے اپنی ٹیم کو میچ میں شاندار فتح سے ہمکنار کرا دیا اور اس طرح سیریز بھی 1-1 سے برابر ہو گئی۔
انگلینڈ کو میچ کے چوتھے دن بھارت کی بساط سمیٹنے میں 20 اوور بھی نہ لگے اور مہمان ٹیم نے آخری آٹھ وکٹیں صرف 63رنز کے اضافے سے گنوائیں۔
انگلینڈ نے میچ میں اننگز اور 76 رنز سے کامیابی حاصل کی۔
واضح رہے کہ بھارت کی ٹیم پہلی اننگز میں صرف 78 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی جس کے جواب میں انگلینڈ نے پہلی اننگز میں 432رنز بنائے تھے۔
اولی رابنسن کو دوسری اننگز میں پانچ وکٹوں سمیت میچ میں 7 وکٹیں لینے پر بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
یہ جو روٹ کی بحیثیت کپتان 27ویں فتح تھی جس کے ساتھ ہی انگلینڈ کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بن گئے۔
امریکا نے افغان ٹرانزٹ مسافروں کی منتقلی کے منصوبے میں تبدیلی کرتے ہوئے غیر ملکیوں کو کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ مؤخر کر دیا۔
ذرائع سول ایوی ایشن کے مطابق امریکا کی جانب افغانستان سے نکالے گئے افراد کو کراچی نہ لانے کا فیصلہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے، افغانستان سے منتقل کیے جانے والے افغان باشندوں اور غیر ملکی شہریوں کو اب صرف اسلام آباد لایا جا رہا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ امریکا نے افغانستان سے نکالے جانے والے افراد کی تعداد میں بھی کافی کمی کر دی ہے اور افغان ٹرانزٹ مسافروں کی منتقلی کے لیے لاہور اور کراچی ائیر پورٹس کو فی الحال اسٹینڈ بائی رکھا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرانزٹ مسافروں کی منتقلی کے منصوبے میں تبدیلی سے سندھ حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق اسلام آباد لائے جانے والے افغان ٹرانزٹ مسافروں کو جتنا جلدی ممکن ہو پاکستان سے منتقل کیا جائے گا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ اسلام آباد آنے والے ٹرانزٹ مسافروں کو چند گھنٹوں میں ہی ائیرپورٹ سے کسی دوسرے ملک منتقل کر دیا جائے گا، صرف انتہائی ضرورت پر ہی ٹرانزٹ مسافروں کو اسلام آباد کے ہوٹلز میں رکھا جائے گا۔
سی پیک کے انتظار میں ریلوے اثاثوں کی مرمت اور دیکھ بھال میں کمی اور حادثات میں اضافہ ہو گیا اور محکمہ ریلوے کا تین سال کے دوران سالانہ خسارہ بڑھ کر 40 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں مسافر ٹرینوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی ہے، 57 مسافر ٹرینیں بند اور صرف 85 چل رہی ہیں۔ ان میں سے بھی 70 نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں تاہم یہ عمل بھی سست روی کا شکار ہے۔
پاکستان ریلوے کے پاس انجنوں کی تعداد 480 سے کم ہو کر 472 اور مسافر کوچز 460 سے کم ہو کر 380 رہ گئی ہیں جبکہ مال گاڑیوں کے 2000 ڈبے بھی کم ہو گئے ہیں۔
ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے کم ہو کر 72 ہزار رہ گی ہے جبکہ پنشنرز ایک لاکھ 15 ہزار سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔
ریلوے ٹریک، پل اور سگنل سسٹم سمیت دیگر اثاثوں کا 60 فیصد حصہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے، میرج ٹرین، لاہور واہگہ اور لاہور گوجرانوالہ کے درمیان چلنے والی ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیشنل مال گاڑی بھی بحال نہ ہو سکی۔
ریلوے افسران کی شاہانہ سیلونز کرائے پر دینے کا تجربہ بھی کامیاب نہ ہوا، کراچی سرکلر ریلوے بحال ضرور ہوئی لیکن ادھوری، ریلوے ٹریک پر 2 ہزار 382 مقامات پر پھاٹک نہیں ہیں۔
تین سال میں درجنوں حادثات ہوئے، 2019ء میں تیز گام میں لگنے والی آگ اور جون 2021 میں سکھر ڈویژن میں مسافر ٹرینوں کے حادثے میں 150 سے زائد مسافر لقمہ اجل بن گئے۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے عوامی مفاد کا قومی ادارہ ہے جسے کمرشل بنیادوں پر چلانا مشکل ہے، کورونا کی وجہ سے ٹرینوں کی بندش اور کم مسافروں کے ساتھ چلانے سے بھی خسارے میں اضافہ ہوا۔
ریلوے حکام کہتے ہیں کہ ریلوے کا 64 فیصد بجٹ تنخواہوں اور پنشن اور 18 فیصد ڈیزل کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔
ریلوے حکام کے مطابق سی پیک پر عمل درآمد ہونے سے ریلوے کی کایا پلٹ جائے گی، کراچی سے پشاور اور ٹیکسلا سےحویلیاں تک بغیر پھاٹک ریلوے ٹریک بچھانے سے ٹرینیں 90 کی بجائے 160 کلومیٹر کی رفتار سے چلنا شروع ہو جائیں گی، پھر ریل کا سفر محفوظ اور تیز ہوجائے گا، ریلوے منافع بخش ادارہ بھی بن جائے گا۔
لاہور : گریٹر اقبال پارک میں ٹک ٹاکر گرل سے دست درازی کے کیس میں متاثرہ خاتون نے طبیعت ناساز ہونے پر شناخت پریڈ کے لیے آنے سے انکار کر دیا۔
شناخت کیلئےآنے والے مجسٹریٹ متاثرہ لڑکی کی آنے کی درخواست پر جیل سے واپس روانہ ہو گئے۔ ٹک ٹاکر لڑکی نے جیل میں 144 افراد کی شناخت کرنا تھی۔
ملزمان کی شناخت پریڈ اب یکم ستمبر کو دوبارہ ہو گی۔ اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ نے سپرٹنڈنٹ جیل کو دوبارہ انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی
حکومت پنجاب نے صوبے کے 11 اضلاع میں جاری اسمارٹ لاک ڈاؤن میں 15 ستمبر تک توسیع کر دی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق جن اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈاؤن میں توسیع کی گئی ہے ان میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، خانیوال، میانوالی، سرگودھا، خوشاب، بہاول پور، گوجرانوالا اور رحیم یار خان شامل ہیں۔
ان اضلاع میں مارکیٹیں رات 8 بجے تک کھولنے کی اجازت ہو گی جبکہ ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند رہے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شادی کی ان ڈور تقریبات پر مکمل پابندی ہو گی تاہم آؤٹ ڈور شادی میں صرف 300 افراد کو شرکت کی اجازت ہو گی۔ اس کے علاوہ ریسٹورینٹس پر رات 10 بجے تک آؤٹ ڈور ڈائننگ ہو سکے گی۔
سرکاری و نجی دفاتر میں 50 فیصد اسٹاف آسکے گا اور صرف ویکسینیٹڈ سیاحوں کو ہی سفر کرنےکی اجازت ہوگی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انخلا سے بڑا مسئلہ انتظامی خلا ہے، دنیا افغانستان میں جاری صورتحال سے درپیش خطرات کو محسوس کرے۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے عمل میں پاکستان کی کاوشوں کی پوری دنیا معترف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق وزیر اعظم کی ایک ایک بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی، اگر پاکستان کے مشورے پر عمل کیا جاتا تو افغانستان کی صورتحال مختلف ہوتی۔
ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حکومت بنانا وہاں کے لوگوں کا کام ہے، ہماری خواہش ہے کہ تمام اقوام پر مشتمل حکومت بنانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے بیانات اس حوالے سے کافی حوصلہ کن ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہر اشاریے بتا رہے ہیں کہ پاکستان استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، پی ڈی ایم کے جلسے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس جلسے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن پھر بیمار ہوجائیں گے اور شہباز شریف کو چاہیے کہ فیصلہ کریں کہ مسلم لیگ (ن) کا لیڈر کون ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن کی 3 سالہ کارکردگی سامنے رکھنی چاہیے تاکہ لوگوں کو موازنہ کرنے کا موقع مل سکے’۔
حکومت سندھ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو 3 سالوں میں 1900 ارب روپے وفاقی حکومت سے ملے ہیں، سندھ کے میڈیا کو صوبائی حکومت سے کارکردگی رپورٹ طلب کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی والوں کو لگ رہا ہے کہ پیسا اندرون سندھ خرچ ہوا جبکہ اندرون سندھ والے سوال کر رہے ہیں کہ یہ پیسا گیا کہاں۔
انہوں نے کہا کہ پورا صوبہ بحران کا شکار ہے، بدانتظامی ہے اور یہاں لاڈلے ارکان ایک کام پر لگے ہیں کہ پیسے کیسے دبئی اور دیگر ممالک منتقل کرنا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ میں گورننس کا حال تشویشناک ہے، یہ آخری مرتبہ تھا اب سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ‘پورے پاکستان میں لوگوں کو صحت کارڈ دیا جارہا ہے مگر یہاں یہ لوگ اپنے عوام کو یہ بھی دینا نہیں چاہتے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم نے براہ راست کام کیا تو کہتے ہیں کہ صوبائی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، نہ خود کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں’۔
حیات عبداللہ
مناظر بڑے ہی ایمان افروز ہیں، سورۃ النّصر کی تلاوت ہے، ذلّت و مسکنت سے ہم کنار ہونے والے امریکا کی گاڑی پر کھڑے ہو کر اذان کی صدائیں ساری ملت اسلامیہ کے کانوں میں رَس گھول رہی ہیں۔20 سالوں تک ایک سَرپھری طاقت کے خلاف ایمانی استقامت کے ساتھ جہدِ مسلسل کر کے شکست دینے والے ایمان وایقان کے سانچے میں ڈھلے لمبی ڈاڑھی اور اونچی شلواروں والے سادہ منش اور سادہ لوح لوگ آج رحم دلی کے پیکر بنے ہیں۔سب کے لیے عام معافی ہے۔ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن اشرف غنی جیسے امریکی دُم چھلّے، دُم دبا کر بھاگ چلے۔
20 سال قبل وہ بڑی رعونت اور نخوت کے ساتھ ایک اسلامی سلطنت کو تاخت وتاراج کرنے آیا تھا، اُس کے ساتھ 29 ممالک پر مشتمل ناٹو فورسز کے جتّھے تھے۔ساری دنیا کونوں کھدروں میں دبکی بیٹھی تھی کہ کہیں غیظ وغضب سے آلودہ امریکی نظروں کا رخ اُن کی طرف نہ ہو جائے۔اُس کی کھوپڑی میں طاقت کا خمار تھا، اُس کے دماغ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا طنطنہ بپھر کر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔
سات اکتوبر 2001 ء کی اس آگ، بارود اور خون سے اٹی صبح کے متعلق سوچنے لگوں تو دل دہل اور دماغ سلگنے لگتا ہے کہ جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور کہلوانے والی آدم خور ریاست، ساری دنیا کی فوج اور اسلحے سے لیس ہو کر افغانستان کو نیست و نابود کرنے کے لیے آ دھمکی تھی۔یہ عجیب طرفہ تماشا تھا کہ جو لوگ افغانستان کو آگ اور بارود میں بھون رہے تھے اُنہیں امن کے نقیب اور پیام بر، جب کہ اس آگ میں جل کر کوئلہ بننے والوں کو دہشت گرد کہ مطعون کیا جا رہا تھا۔امریکی تابع فرمانی میں یہ سارا ظلم ٹھنڈے پیٹوں ہضم کیا جا رہا تھا۔
ہزاروں پاکستانیوں کی قربانی اور اربوں ڈالرز کے نقصان کے باوجود پینٹاگون بیس سالوں تک یہی الفاظ دہراتا رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے نیم دلی سے شرکت کی۔یہ امریکی خوئے بد ہے کہ اُس کے لیے جس قدر بھی قربانیاں دے دی جائیں، وہ کبھی خوش ہوتا ہے نہ اپنے دوست اور اتحادی ممالک کے ساتھ وفا کرتا ہے، خوئے وفا امریکا کو چُھو کر بھی نہیں گزری۔یہ امریکی شعار ہے کہ اُس کی بلیک میلنگ کی کوئی حد ہی نہیں، یہ بھی امریکی وتیرہ ہے کہ وہ اپنی شکست کے تاثّر کو زائل کرنے کے لیے اپنے دوست اور اتحادی ممالک کو بھی روندنے اور کچلنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے نہ شرم۔ویت نام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہاں پر ذلت آمیز شکست کے بعد اُس نے قریبی ممالک میں تباہی مچا دی تھی۔امریکا ہمیشہ پاکستان کو اپنا ناقابلِ اعتبار اتحادی سمجھتا رہا۔جان ایلن بھی یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہُوا، یہی کہتا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان ہمیشہ رہا۔
دو عشروں تک افغانستان کے سادہ منش لوگوں کو دہشت گرد کہہ کر مطعون کیا جاتا رہا، اگر کالی پگڑی اور لمبی ڈاڑھی والے یہ لوگ دہشت گرد تھے تو مجھے بتائیے کہ شمالی اور جنوبی امریکا میں لاکھوں ریڈ انڈینز کو ہلاک کرنے والے کو کس نام سے پکارا جائے؟ اگر غریب اور مفلوک الحال افغانی لوگ دہشت گرد ہیں تو لاکھوں سیاہ فاموں کو اُن کے ملکوں سے غلام بنا کر کون لایا؟ ان میں سے 77 فی صد غلاموں کو راستے میں کس نے ہلاک کیا؟ اور پھر ان لاشوں کو بحرِ اوقیانوس میں کس نے پھینکا؟ یہ سب ظلم وستم کرنے والے کو آپ کس نام سے پکاریں گے؟ اگر یہ افغانی ہی دہشت گردی کو انگیخت دینے والی نسل ہے تو پھر پہلی جنگِ عظیم کس نے بھڑکائی؟ دوسری جنگِ عظیم کس نے شروع کی؟ ہیروشیما اور ناگاساکی کے اڑھائی لاکھ سے زائد لوگوں کو کس نے ایٹم بموں کی آگ میں جلا کر راکھ بنا ڈالا تھا؟ اگر افغانستان کے لوگ ہی دنیا میں امن کے لیے خطرہ تھے تو پھر گوانتاناموبے میں کس نے انسانوں کو جانوروں کی طرح اذیتوں اور صعوبتوں میں مبتلا کیا؟
آج افغانیوں کے عزم واستقلال کے باعث امریکی شکست سے یہ ثابت ہو چکا کہ سپر پاور امریکا نہیں، اسلام ہے۔ایمان وایقان کی حرارت دلوں میں بسائے افغانیوں نے ایک خون خوار اور وحشی طاقت کو ایسی لگام ڈال دی ہے جو صدیوں تک امریکی پیشانی پر سیاہ داغ بن کر ان کی ہزیمت کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔
آزادی سے عشق ہو جائے تو یہ آگ دبانے سے کبھی نہیں دبا کرتی، انور صابری کا بہت عمدہ شعر ہے۔
عشق کی آگ اے معاذ اللہ
نہ کبھی دب سکی دبانے سے
آج کالی پگڑی والے اللہ کے شیروں نے ایمانی اور جہادی قوت کے ساتھ امریکا کی وہ حیثیت ختم کر کے رکھ دی ہے جو سات اکتوبر 2001 ء سے پہلے ہوتی تھی۔آج امریکی جاہ و جلال قصّہ ء پارینہ بنا دیا گیا۔لاکھوں افغانیوں کی بے دریغ قربانیوں کا ثمر ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک للکارنے، دھمکانے اور ڈرانے والا امریکا اب میاؤں میاؤں کرتا کھمبا نوچ رہا ہے۔افغانستان نے اس کے گھٹنے توڑ ڈالے۔اللہ ربّ العزّت کی شانِ کریمی دیکھ کر کلیجوں میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے کہ آج ناٹو فورسز ذلت و رسوائی سے دوچار ہو چکیں، آخر کار ثابت یہی ہُوا کہ امریکا طاقت کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتا، ساری دنیا کے لیے یہ خبر نوید افزا اور مَسرّت آگیں ہے کہ آج امریکا سپر پاور نہیں رہا۔افغانستان کی جیت، عالمِ اسلام کو مبارک ہو، یقینا اس فتحِ عظیم سے مسلم امّہ کی شان و شوکت اور توقیر و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہو گا (انشااللہ)۔
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
ڈاکٹر عاصم ثقلین
طالبان کو افغانستان کی حکمرانی مل جانے پرخوش ہونے والوں پر ہمیں افسوس ہے، دُکھی ہو جانے والوں پر زیادہ افسوس ہے۔کیونکہ اتنی آسان اور ایسی سہل منتقلی اقتدار پر ہم توصرف حیران ہوئے۔۔۔بلکہ ہم اس کیفیت کی تاثیر بڑھانے کے لیے اسے اپنے خاص سرائیکی لہجے میں بول کر کہنا چاہتے ہیں کہ”ہم تو ’حریان‘ رہ گئے۔“ اس حیرت کے کئی اسباب ہیں: مثلاًیہ کہ اگر افغان حکومت پچھلے پندرہ بیس سال سے امریکی ڈالروں کے سائے میں اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو بھی استحکام دے رہی تھی جس کے بل پر اُن کے بھگوڑے حکمران ہم غریبوں کو بھی تڑیاں لگا لیتے تھے تو اُس حکومت اور فوج کے سارے کس بل محض بندوقیں اُٹھائے طالبان کے سامنے کیونکر اور کیسے نکل گئے کہ وہ طالبان کا مقابلہ تو کیا اِن کے سامنے مزاحمت ہی نہیں کر پائے۔ لوگ یہ واقعہ حقیقت کی نگاہ سے نہیں بلکہ اپنے خاص نظریات اور مخصوص زاویہئ نظرسے دیکھ رہے ہیں اسی لیے تمام خوش ہونے والے صرف خوش اور سبھی دُکھی ہونے والے محض افسردہ و ترسیدہ ہیں۔
ہم نے بہت عرصہ تک اچھے طالبان اور بُرے طالبان کی اصطلاحات سنی اور بھگتی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ امریکی اثر و رسوخ کے بعد طالبان اب خود کئی گروہوں میں بٹ چکے ہیں جن میں سے اچھے طالبان پاکستان کے خیر خواہ اور بُرے طالبان کہیں امریکہ اور کہیں انڈیا کے باج گزار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ جیسا ”دیانت دار“ شاطر صرف چند معاہدوں کی پاسداری میں پورا افغانستان اچھے طالبان کو دے کر جا رہا ہے؟ خدا کرے ایسا ہی ہو۔۔۔۔! لیکن سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ وہ سب بُرے طالبان یا یوں کہیں کہ پرو امریکہ طالبان اب کہاں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب سارے اچھے بُرے مل بیٹھے ہوں اور ہم اب چھانٹی کرنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ لگتا ہے کہیں اصل منظر تو شایدسامنے ہے ہی نہیں:
خود اپنی آنکھ ہی اپنے لیے غلاف سمجھ
جو دِکھ رہا ہے اُسے اسقدر نہ صاف سمجھ
کتنی سطحی بات ہے نا کہ امریکہ یہ جنگ ہار کے نکل رہا ہے۔ہم خوش گمان لوگ اس واہمے میں مبتلا ہیں کہ ایک ایک لمحے کی کیلکولیشن اور ایک ایک پینی کا حساب رکھنے والی وہ قوم پچھلے بیس برس مسلسل یہاں رہ کر اپنا نقصان کرتی رہی۔جھک مارتی رہی۔ اُس قوم کے ”بھولے بھالے“ تھنک ٹینکس نے نہ تو اپنے کوئی اہداف مقرر کیے نہ اُن کے حصول کے لیے کوشش کی۔
تو کہ معصوم بھی ہے! زود فراموش بھی ہے!
”الجزیرہ“ کے ایک مختصر سے جائزے کا سرسری نظارا ہی خاصا چشم کُشا ہے جس کے مطابق افغان جنگ میں دو لاکھ اکتالیس ہزار(241000) لوگ لقمہئ اجل بنے جن میں تین ہزار پانچ سو چھیاسی(3586) نیٹو کے اتحادی فوجی تھے۔انہی تین ہزار پانچ سو چھیاسی میں امریکی فوجیوں کی تعدادصرف دو ہزار چار سو بیالیس(2442) ہے۔ یعنی جنگ میں مرنے والے ہر ننانوے میں سے ایک آدمی امریکی تھا باقی اٹھانوے افغانی بشمول پاکستانی بھیڑ بکریاں المعروف آدم زادتھے۔لیکن کتنی ہوش مند ہے وہ قوم کہ جس کے افراد آج بھی چیخ کر اپنے صدر سے پوچھتے ہیں کہ تم نے یہ اٹھانوے ”بھیڑ بکریاں“ کاٹنے کے لیے ہمارا ایک امریکی آدمی بھی کیوں مروایا۔ہاں، مگر آپ اور میں مل کر خوش ہولیتے ہیں کہ امریکہ ذلیل و رسوا ہو کر افغانستان سے جارہا ہے۔ویسے امریکہ نے دس بارہ برس پہلے کیا یہ کہہ نہیں دیا تھا کہ وہ اور اس کے اتحادی 2020ء تک افغانستان سے (اپنے تمام اہداف کے حصول کے بعد) چلے جائیں گے۔اور کچھ عرصہ قبل قطر میں ہونے والے امریکہ افغان معاہدے کے تحت بھی اقتدارطالبان کو منتقل کرنا تھا۔! پھر بھی خوش ہو لیتے ہیں! آخر خوش ہونے میں کیا حرج ہے؟
ہمارے ہاں خوش ہونے والے لوگ تو وہ سادہ دل ہیں جنہیں افغانستان میں موجودہ دنوں میں آنے والی حکومت طالبان کے بجائے اسلام کا احیاء نظر آرہی ہے۔ ہمارے اس لٹے پٹے اور درماندہ کارواں کے لیے تو اب اسلام کے نام ہی کا سہارا باقی ہے۔ کہ اس ملک و قوم کی اصلاح و درستی کے باقی تمام سہارے اب حسرتوں میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں۔ بابائے اردو نے لکھا تھا کہ آدمی جب سب کچھ لٹا بیٹھے تو مذہب میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ہم بھی اس قول کے مطابق ہو چکے سو ہمیں کہیں اسلام یا مسلمانوں کی فتح کا ”جھاکا“ ہی پڑ جائے تو بغلیں بجانے لگتے ہیں۔مگرجب معاملے کی اصل تک پہنچ جائیں تو بغلیں جھانکنے بھی لگتے ہیں۔اس بار بھی ایسا ہی ہے کہ ہمارے لوگ طالبان کے افغانستان میں آنے پر خوش ہیں۔ خدا نخواستہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمارے یہی لوگ طالبان کو پاکستان میں افورڈ کرنے کے قابل ہیں۔اس لیے انہیں خوشی منانے دیجیے! کوئی فرق نہیں پڑتا!
باقی رہی ان لوگوں کی بات جو طالبان کے آنے پر دکھی ہیں اور بہت خوف زدہ بھی کہ یہ لشکر افغانستان کی فتح کے بعد پاکستان کا رُخ نہ کر لے تو ایسے خام خیال لوگوں کے لیے عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ ہمیں تو گزشتہ کل اور آج کے حالات میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ کل افغانی یہاں موجود تھے۔ طالبان ہمارے ہاں ہی سے تیار ہو کر جاتے تھے۔ ایسے میں ڈالروں کی چمک سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں اور اندھے ہو کر ہم خود کو غیروں کی ایک جنگ میں جھونک بیٹھے۔ ہمسائے کے گھر میں آگ پھینکنے والے دشمن کو اپنے پاس رہنے کی جگہ دے دی اور اسی ہمسائے کے لیے اپنے گھر کا دروازہ بھی کھولے رکھا۔ توپھر اس آگ کی چنگاریاں ہمارے گھر پر بھی گرتی رہیں۔لیکن اب تو حالات خاصے مختلف ہیں۔ اول تو یہ کہ اس بار سامنے آنے والے طالبان کتنے اصلی اور کیسے کھرے مسلمان ہیں اس کا فیصلہ چار چھ ماہ میں ہو جائے گا کہ یہ نئے حکمران ملا عمرکی طرح کچے گھر میں رہنے والے ہیں یااب انہیں بھی اغیار نے ہمارے ہاں کے ”مسلمان“حکمرانوں کی طرح محلّات اورڈالروں کی چکا چوند کا اسیرکر دیا ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭
Error 403: The request cannot be completed because you have exceeded your quota..
Domain code: youtube.quota
Reason code: quotaExceeded